ْمجھے سردی صرف اچھی ہی نہیں لگتی بلکہ سردی سے باقاعدہ محبت ہے۔ اگر سردی میں جنگل میسر ہو تو اس سے بڑھ کر آئیڈیل صورتحال بھلا کیا ہو سکتی ہے۔ مگر اب جنگل کا راستہ دھندلا پڑتا جا رہا ہے جو جنگلوں میں میرے ساتھ تھے آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں۔
ایک نیک بخت تھی جو خود بھی جنگلوں کی شوقین تھی، وہ گئی تو گویا جنگلوں کے راستے پر دھند سی پڑ گئی۔ دوستوں کا ایک گروپ تھا جن کے ساتھ شکار اور کیمپنگ کی جاتی تھی۔ اسے ایسی نظر لگی کہ جن کا سردیوں میں اوڑھنا بچھونا ہی شکار یا کیمپنگ تھا، سرے سے ہی بھول گئے۔ لے دے کر ایک چولستان کی جیپ ریلی رہ گئی تھی جو ماہِ فروری میں چار چھ دن کیلئے ویرانوں میں لے جانے کا سبب بن جاتی تھی لیکن شومیٔ قسمت کہ گزشتہ سال بھی پاکستان میں نہیں تھا اور اس سال بھی کہیں دور بیٹھا اس سالانہ ایونٹ میں شرکت نہ کرنے کی حسرت لیے سرد آہیں بھر رہا ہوں گا۔ یہ المیہ ہے کہ حاصل کی خوشی سے زیادہ لاحاصل کا ملال ہوتا ہے۔
ابھی تک یہ حال تھا کہ کبھی میں پیچھے اور سردی آگے تھی اور کہیں میں آگے اور سردی پیچھے تھی۔ فیصل آباد گیا تو بس گزارے کی سردی تھی۔ یوں سمجھیں سردی کی معصوم سی قسم سے پالا پڑا۔ سردی کڑاکے کی نہ ہو تو بھلا اس کا کیا مزہ؟ اسلام آباد گیا تو وہاں بھی سردی کافی مسکین سی صورت بنائے موجود تھی۔ دوستوں نے کہا کہ ادھر کل تک تو کافی سردی تھی تمہارے آنے کی خبر سن کر دائیں بائیں ہو گئی ہے۔ ہم ملتان والوں کا مقدر ہی خراب ہے، جہاں جائیں اپنی شہرہ آفاق گرمی کا کچھ نہ کچھ اثر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
سردی کے موسم میں جو چیز سب سے زیادہ لطف دیتی ہے وہ سرسوں کا ساگ ہے۔ سردیوں کی نعمتوں میں سب سے شاندار چیز ساگ ہے۔ ادھر ملتان میں سرائیکی دوست بعض اوقات پالک کیلئے بھی ساگ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو میں انہیں کہتا ہوں کہ ساگ صرف سرسوں کا ہوتا ہے اور پالک محض پالک ہے۔ اس کو ساگ کے ساتھ گڈمڈ نہ کیا کریں۔ جس طرح جنگلوں میں ساتھ دینے والے کم ہوتے ہوتے ختم ہی ہو گئے ہیں، اسی طرح ساگ دینے والے ختم تو نہیں ہوئے مگر بہت کم ضرور ہو گئے ہیں۔ عثمان آباد میں میری اہلیہ مرحومہ کی ایک سہیلی نہایت شاندار ساگ پکا کر بھجواتی تھی۔ پھر ایک پنجابی کہاوت کے مطابق ’جتھے گئیاں بیڑیاں‘ اوتھے ای گئے ملاح‘ کے عین مطابق یہ راستہ کھو گیا۔ ڈاکٹر ظہور کے گھر سے ساگ چھین جھپٹ کر لایا جاتا تھا۔ پہلے وہ لاہور چلے گئے اور پھر اپنے مالک کے ہاں حاضر ہو گئے۔ میاں یٰسین کی ہمشیرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ساگ بھجواتی تھیں، پھر وہ بھی اوپر کے بلاوے پر لبیک کہہ گئیں۔
منجھلی بیٹی کی ساس ایسا ساگ بناتی تھیں کہ اس نے ذائقے کا معیار مزید سخت کر دیا اور اچھے بھلے ساگ بے مزہ لگنے لگ گئے۔ صحت کے مسائل نے انہیں ساگ بنانے کی مشقت سے چھٹی کروا دی۔ اب لے دے کر شوکت گجر اور رانا شفیق ہیں جہاں سے ساگ آ جاتا ہے اور گزارہ چل رہا ہے۔ اس سال ایک حیرتناک اور محیر العقول واقعہ یہ ہوا کہ شوکت گجر نے معاہدے کے مطابق ادھر اُدھر سے مانگ تانگ کر اپنے اکٹھے کیے جانے والے ساگ میں سے تیسرا حصہ نہایت ایمانداری سے دینا شروع کر دیا ہے۔ میں اس کی اس دریا دلی پر حیران بھی ہوں اور خوش بھی۔ تاہم میرے نزدیک یہ قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
کالم میں ساگ کی سپلائی کی ناگفتہ بہ اور خراب ہوتی ہوئی صورتحال کا تذکرہ حاشا وکلا حسن طلب ہرگز نہیں کہ اسے پڑھ کر رقیق القلب قارئین ساگ بھجوانا شروع کر دیں۔ فقیر اپنی تمام تر درویشی کے باوجود ساگ کے ذائقے پر سمجھوتا نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ عاجز اپنی اہلیہ اور والدہ کے پکائے ہوئے ساگ کو کھا کر صبر شکر کرتا مگر عشروں پہلے ساگ کی محبت میں مبتلا اس منہ پھٹ شخص نے ہر دو خواتین کو صاف کہہ دیا کہ وہ ساگ پکانے کی زحمت نہ کیا کریں، یہ کام ان کے بس کا نہیں ہے۔ ساگ برائلر مرغ کا سالن نہیں کہ ہر خاتون پکا لے۔ اب جبکہ عام خواتین اچھا آلو گوشت نہیں پکا سکتیں، ساگ تو بہت دور کی بات ہے۔
ساگ کھانے کے علاوہ اس مسافر کا دوسرا شوق سرسوں کے کھیت پر کھلا ہوا پیلا رنگ دیکھنا ہے کہ اس سے بڑھ کر تراوت بھرا پیلا رنگ دنیا میں شاید اور کوئی بھی نہیں۔ حتیٰ کہ 1888میں شہرہ آفاق ولندیزی مصور وِنسنٹ وان گؤ (Vincent van Gogh) کی سورج مکھی کے کھیتوں پر بنائی گئی تصاویر کی سیریز Sunflower Field کی پیلے رنگ سے بنائی گئی عالمی شہرت یافتہ مصوری بھی سرسوں کے کھیت کے سامنے ہیچ ہے۔ مجھے اس مصور کی بنائی گئی اس سیریز کی تصاویر ایمسٹرڈیم کے وان گؤ میوزیم اور لندن کی نیشنل آرٹ گیلری میں دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔مگر یہ پیلا رنگ اس پیلے رنگ کا عشر عشیر بھی نہیں جو قدرت چکوال کے ارد گرد پھولی ہوئی سرسوں کو عطا کرتی ہے۔ موٹروے کے اردگرد اس بار سرسوں قبل از وقت ہی پک کر پیلی ہوتی دکھائی پڑی۔ خدا جانے یہ اگیتی کاشت کا نتیجہ تھا یا قدرتی عوامل کار فرما تھے مگر اس بار دسمبر میں سرسوں پھولی دیکھی تو حیرانی ہوئی اور ساتھ ہی پریشانی بھی کہ ساگ کا سیزن اور دورانیہ کم ہو گیا ہے۔ ساگ سے جڑے ہوئے حالات مزید خرابی کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
سردیوں سے جڑی ہوئی ایک اور اہم چیز شادیاں ہیں۔ میں گزشتہ کچھ عرصہ سے شادیوں میں شریک ہونے کے معاملے میں زیادہ پابند ہوتا جا رہا ہوں کہ اب ایسی تقاریب پرانے دوستوں سے ملاقات کا سب سے زبردست ذریعہ بن چکی ہیں۔ میں عمومی پاکستانی رویے سے ہٹ کر کارڈ پر لکھے گئے وقت کے مطابق تقریب میں پہنچ جاتا ہوں۔ اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق رات کا کھانا جلد کھا کر گھر سے روانہ ہو جاتا ہوں اور بعض اوقات تو میزبانوں سے دوچار منٹ پہلے تقریب میں پہنچ جاتا ہوں۔ میزبان کو لفافہ دینے کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوتا ہوں اور پھر کھانا شروع ہونے تک دوستوں سے گپ شپ کرتا ہوں۔ پرانے دوستوں سے ملنا دنیا کا وہ خوشگوار ترین کام ہے کہ اس کو لفظوں میں بیان کرنا کسی طور ممکن نہیں۔
اس سیزن میں یہ مزہ کئی بار لیا لیکن یارِمن عزیزم محمد افضل شیخ کی بیٹی کی شادی کی تقریب اہلِ ملتان کیلئے تو خیر ایک یادگار تقریب ہو گی لیکن میرے لیے یہ دوستوں کا ایک ایسا نایاب اجتماع تھا کہ اس کی مثال مشکل ہے۔ ایسے ایسے دوستوں سے ملاقات ہوئی جو ماضی کے دھندلکوں میں کہیں عرصہ سے گم تھے اور انہیں برادرم افضل شیخ نے وقت کی گرد جھاڑ کر ایسے ڈھونڈ نکالا کہ مجھ جیسا شخص جو دوستوں کی اہمیت اور دوستی کا مفہوم خوب اچھی طرح جانتا ہے، افضل شیخ کی یادداشت، یاد آوری اور محبت پر حیران رہ گیا۔
میں نے اپنی بیٹیوں کی شادی پر اپنی بہترین یادداشت کو بروئے کار لاتے ہوئے دوستوں کو حتی الامکان حد تک یاد رکھتے ہوئے تقریب میں بلایا مگر یہ سب کچھ افضل شیخ کی کاوش کے سامنے ہیچ تھا۔ افضل شیخ کی محبت کی ڈور سے بندھے ہوئے دوست امریکہ، کینیڈا،برطانیہ، فرانس، سپین اور خدا جانے کہاں کہاں سے کھنچے چلے آئے۔ زمانۂ طالب علمی کے وہ دوست جو بھولا بسرا فسانہ بن چکے تھے، اس تقریب میں موجود تھے۔ ہمارے ایک دوست جو پنجاب کے آخری ضلع میں ڈپٹی کمشنر تھے اور سرکاری ڈیوٹی کی وجہ سے خود نہ آ سکے، ان کی پردہ دار بیوی ان کی نیابت کیلئے ملتان پہنچی۔ اس اجتماع کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ کسی ایلیٹ کلاس کا نمائندہ اجتماع نہ تھا۔ یہ گریڈ صفر سے گریڈ 22 تک اور مزدور سے مل مالک تک دوستوں کی کہکشاں تھی۔اللہ کا شکر ہے کہ اس مسافر کی خواہشات اور طلب عمر خیام سے بھی کہیں کم ہیں۔ سردی، جنگل، ساگ اور ہمدم دیرینہ کے سوا فی الحال نہ کوئی طلب ہے اور نہ خواہش۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ