عرصہ دراز کے بعد دوستوں کے ساتھ پہاڑوں اور سمندروں کی سیر کا موقع ملا، ذوالقرنین اور نعیمہ میاں بیوی ہیں اور دوستوں کے دوست، انہیں احمد فراز، منیر نیازی، اجمل نیازی، جاوید قریشی جیسی شخصیات کی مستقل میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہے، ان کے گھر کا دروازہ کبھی دوستوں کیلئے بند نہیں دیکھا، آپ جب بھی ان کے گھر جائیں نعیمہ کو ہمیشہ باورچی خانے میں پہلے سے موجود مہمانوں کیلئے کھانا تیار کرتے ہوئے دیکھیں گے، ان کے اکلوتے بیٹے غالب اقبال کا نام بھی احمد فراز صاحب نے رکھا تھا، ان کے حلقہ احباب میں زندگی کے ہر شعبہ کے لوگ شامل ہیں، اور دوستوں کا یہ گروپ ایک کنبے کی طرح محسوس ہوتا ہے، پچھلے دو ماہ میں اس گروپ نے تین بار ناران، کاغان، مظفر آباد، بالا کوٹ،جیسے تفریحی مقامات کی مشترکہ سیر کی، پہلے دو دوروں میں تو میں شامل نہ ہو سکا، البتہ اس ہفتے ہونے والے تیسرے ٹرپ میں شریک ہونے کا موقع مل ہی گیا، ہماری لاہور سے روانگی رات دو بجے ہوئی، شریک سفر افراد میں چھ سال پہلے داغ مفارقت دے جانے والی عظیم فوک گائیکہ بلبل صحرا ریشماں کا بیٹا ساون، اس کی اہلیہ مہرو اور ایک جوان بیٹا کامران خان بھی موجود تھے، ہم نے سوچا، چلو! اس سفر کے دوران ریشماں جی کی یاد بھی تازہ ہوتی رہے گی۔ یہ وہی ساون ہے جس کی پیدائش کے سال کے حوالے سے ریشماں سے ایک اینکر نے سوال کیا تھا تو ان کا جواب تھا،،،، سال دا تے پتہ نئیں، بس ایناں یاد اے کہ اوہدوں بارشاں بڑیاں ہوئیاں سن تے او سون دا مہینہ سی، ،،،،،ریشماں کے دوسرے بیٹے کا نام بھادوں ہے اور وہ بھادوں کے مہینے کی پیدائش ہے۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭
ہمارے قافلے کا پہلا پڑاؤ بھوربن کا ایک غیر معروف ہوٹل تھا، جس کے اردگرد کوئی مارکیٹ تھی نہ بازار اور نہ ہی کوئی اور سہولت، رات کو جب تمام لوگ سستانے کے بعد سیر کیلئے نکلنے کی تیاری کرکے ہوٹل سے نیچے اترے تو ایک’’بم‘‘پھٹا، پتہ چلا کہ اس تفریحی دورے کے انتظامات جن صاحب کے سپرد کئے گئے تھے انہوں نے صبح یہاں پہنچتے ہی کوچ کے ڈرائیور کو دو دن کی چھٹی دیدی تھی اور وہ دو دن کے لئے اپنے گھر ایبٹ آباد جا چکا ہے، اب کیا ہو سکتا تھا؟ ہمارے ساتھ ایک فیملی اپنی ذاتی گاڑی میں سوار ہو کر بھی آئی تھی یہ دو بچوں سمیت کل چھ افراد تھے جو ہوٹل میں قید ہونے سے بچ گئے، میری مراد ہمارا ہردلعزیز دوست kkخرم خان ہے جو گھرسے تو فیملی کے ساتھ ناران، کاغان کی سیر کو نکلا تھا لیکن میں نے اسے لینڈ سلائیڈنگ سے خوفزدہ کرکے اپنا ہمراہی بنا لیا تھا، کوچ ڈرائیور کی عدم دستیابی کے باعث باقی لوگوں کے لئے کوئی آسرا بچا تھا تو وہ تھا، ریشماں کے بیٹے اور بہو کی ہمارے ساتھ موجودگی، ریشماں کی بہو ریشماں کی سگی پھوپھی کی بیٹی ہے، اس طرح ساون کی بیوی اس کی خالہ بھی لگتی ہے، لیکن عمر میں نہیں،،،،،،،،،، اب سفر کی تھکاوٹ اتارنے کیلئے بھوربن کے ہوٹل میں محفل موسیقی سجا لی گئی جہاں ریشماں فیملی کے افراد نے فن کا مظاہرہ کیا اور داد کے ساتھ تھوڑے بہت پیسے بھی سمیٹے، پھر اگلا دن چڑھا تو میزبان نعیمہ ذوالقرنین نے ہوٹل کے باورچی خانے میں قیمہ بھون کر تمام ساتھیوں کو ناشتہ کرایا، خوش قسمتی سے روٹیاں ساتھ والے ہوٹل سے مل گئیں ورنہ لوگوں کو قیمہ بھی چمچیوں کے ساتھ کھانا پڑتا، وقت گزرا، رات ہوئی، قافلے میں تین خواتین بھی شامل تھیں،ایک ماں اور دو بیٹیاں، عورتیں تو سیر سپاٹے اور شاپنگ کے بنا چند گھڑیاں بھی نہیں گزار سکتیں اور انہیں ہوٹل میں بند ہوئے دوسری رات بیت رہی تھی، رات بارہ بجے کے بعد ان تین خواتین نے سب کو آگاہ کیا کہ لاہور سے فون آیا ہے ان کی نانی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے انہیں فوراً واپس جانا ہوگا، واپسی کے لئے انہوں نے اسلام آباد سے اپنے ایک رشتہ دار کی گاڑی منگوالی ہے جو انہیں کسی بس اڈے پر اتار دے گی، ان تین خواتین کی طرف سے واپسی کے اعلان نے سب کو مغموم کر دیا، پتہ نہیں کیوں؟ ٭٭٭٭٭
تیسری رات ہم بالا کوٹ میں دریائے کنہار کے کنارے ایک ہوٹل میں موجود تھے، قریب ہی ایک چشمہ موجود تھا، سب لوگ اپنی بوتلوں میں وہاں سے پانی بھر کے لائے، مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس چشمے کے پانی میں بہت سے طبی فوائد ہیں، سب لوگوں نے اس پانی میں اپنے لئے شفا ڈھونڈی، ہوٹل کے کھلے میدان میں خیمے بھی نصب کر دیے گئے جہاں kk کی دونوں بیٹیوں نے خوب انجوائے کیا، پھر سب لوگ میوزک کی دھنوں پر سرکتے بھی رہے، ریشماں کے بیٹے ساون اور پوتے کامران خان نے سب سے اچھا ڈانس کیا، یوں لگا جیسے دونوں بیرونی دوروں کے دوران وہاں کے ڈانس کلبوں میں بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ لاہور واپسی سے پہلے سب لوگ گروپوں کی شکل میں کرسیاں لے کر دریا کے کنارے بیٹھ گئے، میں جن دوستوں کے ساتھ بیٹھا ان میں’’ریشماں دا منڈا‘‘ ساون بھی تھا، گفتگو یہ ہو رہی تھی کہ کیا واقعی انسان خاندانی اور غیر خاندانی ہوتے ہیں؟ اونچ نیچ اور ذات برادری انسانی شخصیت اس کے کردار اور معاشرے میں اس کی ہار جیت پر اثر انداز ہوتی ہے؟ میں نے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو مرحوم سید عباس اطہر کا ایک واقعہ سنایا۔۔۔۔ مرنے سے کوئی ایک سال پہلے عباس اطہر صاحب نے مجھ سے کہا،،،،،، یار! میں اونچ نیچ اور ذات برادریوں پر قطعی یقین نہیں رکھتا تھا، لیکن اب کچھ عرصہ سے میں اس فلسفے کا قائل ہو گیا ہوں۔۔۔۔۔ میں نے جھٹ پوچھا، وہ کیسے شاہ صاحب؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب سے انہوں نے گھوڑوں کی ریس کھیلنی شروع کی ہے، عباس اطہر صاحب کا فرمانا تھا کہ ریس میں کبھی کوئی غیر نسلی گھوڑا آج تک نہیں جیتا، اسی لئے جواریے ہمیشہ نسلی گھوڑوں پر زیادہ پیسے لگاتے ہیں، میری بات ابھی جاری تھی کی ریشماں کے بیٹے ساون نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا،، آپ کے عباس اطہر صاحب کا نیا نظریہ بالکل درست تھا، گھوڑوں کی ہی طرح انسان بھی نسلی اور غیر نسلی ہوتے ہیں، ریشماں کے بیٹے ساون نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ’’انکشاف‘‘ کیا کہ میں اس فلسفے کی تصدیق اس لئے کر رہا ہوں کہ ہمارے خاندان کا آبائی پیشہ بھی گھوڑوں کی خرید و فروخت تھا، جیتنے والے گھوڑے جب چار پانچ بار فتح حاصل کر لیتے ہیں تو ان کے مالکان انہیں تھکے ماندے تصور کرکے بیچ دیتے ہیں، ایسے گھوڑوں کو ہم خرید لیا کرتے تھے اور ان سے نسلی گھوڑوں کی نسل آگے بڑھاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریشماں کے بیٹے کے اس انکشاف نے تو مجھ پر سکتہ ہی طاری کر دیا، پاکستان کی اس عظیم مغنیہ اور اس کے خاندانی پس منظر کے حوالے سے نصف صدی تک جو کچھ ہم سنتے رہے، جو کچھ ہم پڑھتے رہے وہ سب ایک ہی لمحے میں ’’باطل‘‘ ہو کر رہ گیا اور میری آنکھوں کے سامنے ریشماں کی بے بسی کی موت کے سارے مناظر گھوم گئے، وہ ساری سرکاری اور غیر سرکاری امدادیں بھی جو ریشماں کی زندگی بچانے کیلئے دی جاتی رہیں۔۔۔۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)