آج کا ہمارا کالم تو ہے اسٹیج کی ایک ایکٹرس کے بارے میں جس نے اپنے دور میں بہت،، کمائی،، کی، بڑا نام بنایا، بڑے اسکینڈلز جنم دیے پھر اچانک،،، حاجن ،،، بن گئی ، عبایہ پہن لیا، لیکن وہ عبایہ کا وزن زیادہ دیر برداشت نہ کرسکی، ماضی میں لوٹنا چاہا، مگر ماضی نے قبول کرنے سے انکار کر دیا، بے شک گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا، لیکن کیوں نہ اس رقاصہ کے تذکرے سے پہلے تھوڑی سی بات ہو جائے آج کی فلم انڈسٹری کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان فلم کی تاریخ کے اوراق کبھی کبھار سامنے آتے رہتے ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ آج کی فلم انڈسٹری اپنی ہی تاریخ کی الف ب سے بھی نابلد ہے۔ آج کے سپر اسٹارز وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، انہیں اس سے دلچسپی ہو بھی نہیں سکتی۔ کیونکہ آج وہ فلمیں بن ہی نہیں رہیں جو فلم کی تعریف پر پوری اترتی ہوں۔ میں ایک تکنیکی بات کر رہا ہوں۔ ہم بڑی اسکرین پر چھوٹی اسکرین کے ٹیلی پلے دیکھ رہے ہیں۔ فلم کی اس نئی تعریف کی بنیاد مختلف چینلز نے فلم کے شعبہ میں فنانسنگ کرکے رکھی، یہ فلمیں زیادہ تر مختلف اداروں کے اشتراک سے بنائی گئیں۔ آپ ان فلموں کو اشتہاری فلمیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان میں کئی بہت اچھی’’فلمیں‘‘ بھی تھیں، کئی نے عالمی ایوارڈز بھی حاصل کئے، لیکن یہ’’اچھی فلمیں‘‘ بھی ڈاکو منٹری یا ٹیلی فلمیں ہی تھیں۔ حال ہی میں ’’باجی‘‘اور ’’سپر ماڈل‘‘ جیسی موویز نے شائقین کی توجہ حاصل کی، میں نے بھی یہ فلمیں دیکھیں اور اسی نتیجے تک ہی پہنچا کہ یہ فلمیں بنانے والے فلم کی بنیادی تکنیک سے بہرہ ور نہیں ہیں۔ حالانکہ فلم کے ہر شعبہ میں ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں جن میں سے کچھ شام ڈھلنے کے بعد ویران ایور نیو اسٹوڈیو کے کسی نہ کسی کونے میں اپنے شاندار ماضی میں کھوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ فلم انڈسٹری کے اساتذہ کرام ہیں ، اب یہ دنیا میں مہمان اداکار کی طرح ہیں، ہم ان سے استفادہ کر سکتے ہیں، ان کو عزت دے سکتے ہیں، ان کے گھروں میں دو وقت کا چولہا جلا سکتے ہیں، یہ آپ کے ساتھ بہت شفقت بہت محبت کا مظاہرہ کریں گے، آپ کو حقیقی فلم میکر بنا دیں گے۔ آج فلمی دنیا کا اقتدار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ نہ صرف اپنے اقتدار کو دوام دے سکتے ہیں بلکہ صحیح معنوں میں انڈسٹری کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کر سکتے ہیں، اس وقت انڈسٹری صرف اس لئے کراچی میں ہے کیونکہ وہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ آفسز ہیں لیکن لاہور میں بیکار بیٹھے ہنرمندوں کو نظر انداز کرکے ہم اپنا مستقبل شاید تابناک نہ بنا سکیں۔ ٭٭٭٭٭
آج اس نرگس کے بعض واقعات لکھ رہا ہوں ، جس کے بولڈ ڈانسز نے اسٹیج ڈرامے کو موت کی نیند سلا دیا تھا، اس ’’نیک کام‘‘ میں وہ اکیلی نہیں تھی، اس کی تقلید میں بہت ساریوں نے اس جیسے مکالمے بولنا شروع کر دیے تھے اور اس جیسا لباس اوڑھنا شروع کر دیا تھا ، اس واردات میں اس کی بہن دیدار نے بھی خوب ہاتھ بٹایا،،،،، نرگس کو عالمی شہرت ملی۔ ایک تھانیدار کے بہیمانہ تشدد سے، نرگس کو اس پولسئیے عاشق کے ہاتھوں اتنی مار پڑی تھی کہ اس کی بہن دیدار نے پیش گوئی کردی کہ نرگس زندگی میں کبھی ماں نہ بن سکے گی، بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ نرگس کی پٹائی اس وقت کے حاکم کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا نتیجہ تھی،،،، ہوا کچھ یوں تھا کہ ڈرامے جب کہانی سے آزاد ہوگئے اور اسٹیج پر بیہودگی براجمان ہو گئی تو ’’حاکم وقت‘‘ کے حکم پر انتظامیہ حرکت میں آ گئی ، ناز تھیٹر پر چھاپہ مارا گیا، نرگس تو کسی کی موٹر سائیکل پر فرار ہو گئی اور پکڑے گئے ، کچھ نئی ڈانسرز کے ساتھ مستانہ اور ببو برال جیسے معصوم ایکٹر ، میں اس بات پر کلی طور پر متفق ہوں کہ اس چھاپے کے بعد مستانہ اور ببو برال کی تھانے میں جو تذلیل اور ٹھکائی ہوئی تھی وہ ان دونوں کی موت کا باعث بنی، آرٹسٹ سے اس کی عزت چھین لی جائے تو وہ زندہ درگور ہو جاتا ہے ،نرگس کا انہی دنوں ایک تقریب میں’’حاکم وقت‘‘ سے ٹاکرا ہوا تو اس نے بڑی بے باکی دکھائی ، نرگس کا کہنا تھا کہ جب بڑے بڑے حکومتی لوگ اور سرکاری افسر اس جیسی رقاصاؤں کو ناچنے کے لئے اپنے گھروں یا اڈوں پر بلواتے ہیں تو اس وقت ہم آرٹسٹ ہوتی ہیں ، لیکن جب یہی ،،، رقص،، ہم روٹی، روزی کے لئے کرتی ہیں تو فحاشی کا الزام لگ جاتا ہے۔
نرگس کی ماں اور باپ دونوں کا تعلق فلم انڈسٹری سے رہا ہے، باپ ساؤنڈ ریکارڈسٹ اور ماں چھوٹی موٹی ایکٹرس تھی، میرے خیال میں نرگس بہت ٹیلنٹڈ تھی، وہ جسمانی اعضاء کی بجائے اپنے فن پر بھروسہ کرتی تو بھی بہت آگے جا سکتی تھی۔ پہلی بار ان دونوں بہنوں نرگس اور دیدار کو میں نے لاہور پریس کلب میں دیکھا۔ آزادی صحافت کے حق میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگا ہوا تھا، یہ دونوں بہنیں وہاں پھول لے کر آئی تھیں، کلب میں موجود ایک رپورٹر نے ان دونوں بہنوں کے تاثرات لینے کی کوشش کی تو دیدار جھٹ سے بولی،،،، ہمیں کیا پتہ کہ یہاں کیا ہو رہا ہے؟ صحافیوں کی بھوک ہڑتال کیوں ہے ؟ ہمیں تو فوٹو گرافر نجمی نے کہا تھا کہ پھول لے کر آنا ہے ، اور ہم گلدستے لے کر یہاں پہنچ گئیں۔۔۔ پھر نرگس سے ایک ملاقات ہوئی ایک سماجی تقریب میں ، وہ اپنی ماں کے ساتھ وہاں آئی تھی ، نرگس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک فلم پروڈیوس کرنا چاہتی ہے۔ میں نے پروڈکشن میں آنے کی وجہ جاننا چاہی تو اس نے ماں کی جانب تکتے ہوئے جواب دیا،، میں اس فلم میں بتاؤں گی کہ ہم جیسی لڑکیوں کی مائیں اپنی ہی بیٹیوں کے ساتھ کیا کیا کرتی ہیں ؟نرگس نے کئی سال بعد ’’بلو 302‘‘ کے نام سے فلم بنائی۔ بلو اس کی ماں کا نک نیم تھا ،باکس آفس پر یہ فلم کامیاب رہی تھی۔ اس کے بعد بھی اس نے کئی فلموں کو فنانس کیا ، جن کی ہیروئن وہ خود تھی۔۔۔ نرگس نے اپنے عروج کے دور میں شمع سینما ٹھیکے پر لیا اور سٹیج ڈرامے پروڈیوس کرنے لگی ، جب بھی ملتی تھیٹر دیکھنے کی دعوت دیتی ، ایک رات گیارہ بجے کے قریب سینما والی سڑک سے گزر ہوا تو یہ سوچ کر گاڑی روک لی کہ چلو آج تھوڑا سا ڈرامہ ہی دیکھ لیتے ہیں۔۔۔۔ اس وقت وہاں کوئی آدمی موجود نہ تھا ، تمام لائٹس بند تھیں ، داخلی دروازے پر ایک دربان کھڑا تھا، میں نے دربان سے سوال کیا کہ کیا آج ڈرامہ نہیں ہو رہا ،؟ اس نے بتایاکہ ڈرامہ تو آدھا ختم بھی ہو چکا ، میرے تعارف کرانے پر وہ اندر گیا اور داخلے کی اجازت لے آیا۔
سینما ہال کے تمام دروازوں پر بڑے بڑے تالے لگے تھے۔ مجھے چور دروازے سے ایک چھوٹے سے کیبن میں لیجایا گیا ، جہاں سے اسٹیج اور ہال کو دیکھا جا سکتا تھا ، اس وقت نرگس کسی گانے پر پرفارم کر رہی تھی، کیبن میں نرگس کی ماں اور باپ اسٹیج پر نظریں جمائے بیٹھے تھے، ہال تماش بینوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔گانا ختم ہوا اور نرگس اسٹیج سے آؤٹ ہو گئی ، چند ہی لمحوں بعد وہ تیزی سے ہمارے والے کیبن میں داخل ہوئی اور واش روم میں گھس گئی،،، اس کے پیچھے تیزی سے ایک آدمی بھی کیبن میں داخل ہوا اور سانس لئے بغیر نرگس کے باپ سے مخاطب ہوا۔۔۔،،،،،۔ ابا جی ، ابا جی ، دیکھیں ، اب تو لوگوں کا موڈ بنا ہے اور یہ کہہ رہی ہے اور ڈانس نہیں کرے گی، مجھے بعد میں بتایا گیا کہ وہ نرگس کا خاوند ہے اور کینیڈا کا گرین کارڈ ہولڈر ہے۔ پھر نرگس اس کے ساتھ کینیڈا میں ہی شفٹ ہو گئی تھی، لیکن اب کئی سال بعد وہ پھر اپنے شہر لاہور میں ہے اور بڑا کامیاب بیوٹی پارلر چلا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ شاید وہ جان گئی ہے کہ محنت میں ہی عظمت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)