آج کے کالم کا عنوان اور متن اتنا حساس اور اعصاب شکن ہے کہ کچھ لکھتے ہوئے کپکپی طاری ہو جاتی ہے، دکھ لکھنا سب سے مشکل ہوتا ہے، دکھوں کو بیان کرنا سہل ہوتا تو دکھ کبھی جنم ہی نہ لیتے، توکیوں نہ پہلے ادھر ادھر کی باتیں ہو جائیں، قلم نے حوصلہ پکڑا تو اصل موضوع پر بھی آ جائیں گے، میں اعتراف کرتا ہوں کہ میرے پاس بیشمار ایسی کہانیاں ہیں، جنہیں لکھنا اور سنانا ہمیشہ سے میرے لئے دشوار رہا ہے۔ میں نے سچ مچ دنیا دیکھی ہے، اصل والی بھی اور محاورے والی بھی۔ دنیا دیکھنا کوئی مشکل کام نہیں،کبھی کبھی آپ صرف ایک آدمی سے ملاقات کرکے دنیا دیکھ لیتے ہیں اور کبھی ساری دنیا کے پھیرے لگا کر بھی دنیا دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ایک بار اپنی ایک کہانی میں لکھا تھا کہ میں نے ہزاروں لوگوں کو لاہور دکھایا، مگر ایک لاہور مجھے خلیفہ ہارون رشید نے دکھایا جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کہانی چھپتے ہی شعیب بن عزیز کا فون آ گیا ‘وہ قہقہے لگا رہا تھا، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا وہ لاہور مجھے بھی خلیفہ نے دکھایا تھا۔ ہر بڑے آدمی کے پیچھے کبھی اس کی بیوی کا ہاتھ نہیں ہوتا۔ یہ ایک نمائشی محاورہ ہے صرف بیویوں کو خوش رکھنے کیلئے، انسان کو بڑا یا چھوٹا بنانے میں کئی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ زندگی ایک پیکیج کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور پیکیج کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ یہی پیکیج کبھی انسان کو ٹھوکروں پر لے لیتے ہیں، اور کبھی عروج کمال پر لے جاتے ہیں،،، زندگی کے بارے میں ایک نہیں سینکڑوں فلسفے موجود ہیں اور یہی حال آدمی کا ہے، ہم ہمیشہ دوسروں کو اپنے اپنے تجربے کی بنیاد پر پرکھتے ہیں، ایک آدمی کبھی بھی سب کے لئے اچھا یا سب کیلئے برا نہیں ہوتا۔ صحافت میں میرے مربی اور استاد جناب عباس اطہر مرحوم نے ایک دن کہا۔۔۔ تم تو جانتے ہو ،میں نے زندگی بھر انسانی مساوات کی بات کی ہے لیکن اب میرا نظریہ بدل گیا ہے۔۔۔ میں نے پوچھا، کیوں اور کیسے شاہ صاحب؟ تو جواب ملا،، جب سے میں نے ریس کھیلنا شروع کی ہے،،، انہوں نے اپنی نئی فلاسفی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ میں نے ریس میں کبھی خاندانی گھوڑے کو ہارتے ہوئے نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔ میں نے انہیں جواب دینا مناسب نہ سمجھا لیکن دل میں یہ ضرور سوچا کہ۔۔۔۔ شاہ جی آپ نے تو خود کئی غیر خاندانی گھوڑوں کو جیتنے والے گھوڑے بنایا ہے۔ میرا تو آدھا علم آوارگی کی مرہون منت ہے،جب زندگی میں آسودگی آنا شروع ہوتی ہے تو علم بھی محدود ہونے لگتا ہے، بڑے لوگ،، دولتمند لوگ اکثر مخبروں کے ذریعے زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں اور مخبر حضرات اپنی نوکری پکی رکھنے کے لئے ان دولتمندوں کو بھول بھلیوں میں پھنسائے رکھتے ہیں، ان بڑے لوگوں میں حکمران بھی شامل ہوتے ہیں، آجکل کی آوارگی اور پانچ دہائی کی آوارگی کے درمیان اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ آپ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف میں محسوس کر سکتے ہیں۔سماج اپنی ہی قید میں جکڑا جا چکا ہے، دو دو سال کے بچے موبائل پر کارٹون دیکھے بغیر دودھ پیتے ہیں نہ کھانا کھاتے ہیں، انٹر نیٹ کی سہولتوں کے ساتھ پروان چڑھنے والے بچے ہماری طرح روزانہ پورے شہر کا گشت کیسے لگا سکیں گے، دوستیاں کہاں سے خریدیں گے، ان کی روح میں احساس اور محبت اور نفرت کے جذبے کیسے شامل ہونگے،اور تو اور انہیں رشتوں کی پہچان کیسے ہوگی۔یہ جب جوان ہونگے تب تک شاید انسان ہی باقی نہ رہیں یا انسان روبوٹ بن چکے ہوں ۔ہر گھر میں انسانوں کی مشینیں ملا کریں گی اور یہ مشینیں ایک دوسرے کے ناموں تک سے واقف نہ ہونگی۔ سب ایک دوسرے کو نمبروں سے پکارا کریں گے، مرنے والوں کی میتیں بھی ٹھیکیدار روبوٹ قبرستانوں تک پہنچا دیا کریں گے۔۔۔۔ لیکن کیا واقعی یہ زمانہ سر پر ہے اور جلد ہی نمودار ہونے والا ہے؟ نہیں اتنی بھی کیا جلدی ہے‘ جناب۔ جب تک ہم ہیں انسانی رشتوں کا قتل عام روکے رکھیں گے اپنی پوری بساط کے ساتھ اور کوشش کریں گے کہ اپنے جیسوں کی ایک کھیپ اور تیار کرکے جائیں اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے، پہلے بھی ایسے ہی ہو رہا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو دنیا کب کی اجڑ چکی ہوتی۔ آج ہمارے کالم کا عنوان ہے غلام دلہنیں۔۔۔اور آج کا یہ کالم ان ماں باپ کیلئے ہے جو انجانے میں برطانیہ اور امریکہ، کینیڈا جیسے امیر ملکوں میں اپنی بیٹیاں بیاہ کر سرخرو ہوجاتے ہیں اور ساری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ان کی بچی بڑے ملک میں بیاہی گئی ہے اور وہ ان بیٹیوں کی خوش قسمتی پر نازاں ہوتے ہیں، میری آج کی اس تحریر اور میرے اس مشاہدے کا اطلاق بیرون ملک بیاہی جانے والی سب بیٹیوں پر نہیں ہوتا ، اورسچائی بھی یہی ہے کہ ایسی ساری شادیاں بچیوں کی شادمانی کا باعث نہیں بنتیں۔غیر ممالک میں آباد بہت سارے لوگ جن کا تعلق پاکستان سے ہی نہیں پاکستان جیسے کئی دوسرے ممالک سے بھی ہوتا ہے۔مفت کی نوکرانیاں گھروں میں لانے کیلئے اپنے اپنے دیس میں لڑکوں کے رشتوں کے اشتہارات چھپوائے جاتے ہیں، جان پہچان کے لوگوں کی مدد حاصل کی جاتی ہے، میرج بیوروز کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ حقیقت میرے سامنے کب کھلی ؟ میں جب بھی کسی ترقی یافتہ ملک سے واپس لوٹا، مجھے ایک ایسی لڑکی ضرور ملی جو ہاتھ میں واپسی کا ٹکٹ تھامے کسی کونے میں کھڑی آنسو بہا رہی ہوتی ہے‘ پھر اس رونے والی لڑکی کی جانب دوسری کوئی خاتون مسافر متوجہ ہوتی ہے۔۔ اس کے بعد رونے والی کے آنسو مزید شدت سے بہنا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی رام کہانی بیان کرنا شروع ہو جاتی ہے، سب کہانیاں عموماً ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ دیار غیر سے ایک رشتہ آتا ہے، کوئی رشتہ دار، کوئی ہمسائی یا کوئی میرج بیورو وسیلہ بنتا ہے، گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، لڑکے والوں کا عموماًاصرار ہوتا ہے کہ انہیں کسی قسم کا جہیز نہیں چاہئے، وہ کہتے ہیں ہم لڑکی کو تین کپڑوں میں ہی بیاہ کر لے جائیں گے، اللہ کا دیا ہوا ان کے پاس سب کچھ ہے ، ہم لڑکی کا ویزا اپلائی کر رہے ہیں ، جونہی ویزا لگے گا وہ بچی کو ساتھ لے جائیں گے۔ اس کے باوجود لڑکی والے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اس کا جہیز بناتے ہیں، کیونکہ ان کی بیٹی دوسرے ملک میں امیر لوگوں کے گھر بیاہ کر جا رہی ہے، کوئی ان کی بیٹی پر انگلی نہ اٹھا سکے کہ وہ خالی ہاتھ سسرال آئی ہے۔ پھر بیٹی کو وداع کرنے کا دن آ جاتا ہے، بیٹی ماں باپ کا آنگن سونا کرکے دور سات سمندر پار چلی جاتی ہے، بے چارے والدین کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ انکی بیٹی اب کبھی ان سے مل بھی پائے گی یا نہیں۔۔ میں نے سترہ جولائی کو ٹورنٹو سے لاہور واپسی کے دوران بھی ایسی ہی ایک بدقسمت بیٹی کو آنسو بہاتے اور ایک دوسری مسافر خاتون کو اپنی شادی کے دکھ سناتے ہوئے دیکھا، میں نے کئی بار ایسی بچیوں کو دیار وطن واپسی پر خاک وطن کو چومتے اور سجدوں میں گرے ہوئے دیکھا ہے، ایسی بچیوں کو بیاہ کر لیجانے والے ان سے گھر کے تمام کام کرواتے ہیں، انہیں شاپس پر سیلز مین کے طور پر بھی کھڑا کر دیتے ہیں اور سب سے بڑا ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ ان کے پاسپورٹ ضبط کرکے انکا والدین سے ہر قسم کا تعلق ختم کر دیتے ہیں، ایک حالیہ واقعہ بھی میرے علم میں آیا ہے ،میرے ایک دوست نے اپنے سمندر پار رشتہ داروں میں اپنی بیٹی بیاہی، اس بچی کو کبھی کبھار خود سر پر کھڑے ہو کر والدین سے بات کرائی جاتی تھی، کئی سال بعد یہ بچی والدین کے گھر ملنے آئی تو اس کا شوہر ساتھ تھا، شوہر نے اپنی موجودگی میں ملاقات کرائی اور اسے واپس لے گیا، پتہ نہیں کیا کیا باتیں ہوں گی‘ اس بیٹی کے دل میں جو اس نے اپنی ماں اور اپنے باپ سے کرنا تھیں اور وہ نہ کر پائی، پتہ نہیں وہ پھر کبھی پاکستان واپس آئے گی یا سب کچھ سینے میں چھپائے وہیں مر جائے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ