دو دن پہلے لاہور سیکرٹریٹ کے باہر کھڑے ایک پولیس افسر نے ایک خاتون کو لاٹ صاحب کے دفتر میں داخل ہونے سے اس لئے روک دیا کہ اس کے سر پر دوپٹہ نہیں تھا، خاتون نے وجہ دریافت کی تو اسے بتایا گیا کہ پنجاب کی خاتون وزیر ڈاکٹر یاسمین کا حکم ہے، بات ہم تک پہنچی تو میں نے کہا یہ ممکن نہیں، بتانے والے دوست نے کہا آپ کب سے ڈاکٹر یاسمین راشد کو جانتے ہیں؟ میرا جواب تھا کہ ان کے سسر غلام نبی میرے والد کے کلاس فیلو تھے اور میں بھی انہیں کم از کم پچھلے پچیس سال سے جانتا ہوں، میرے دوست نے کہا کیا تم نے کبھی ڈاکٹر صاحبہ کو بغیر دوپٹے کے دیکھا ہے؟ میں نے دماغ پر زور دینے کے بعد کہا، نہیں کبھی نہیں؟ پھر میں نے سوچا بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان نے بھی اپنے اندر ایک داڑھی رکھی ہوئی ہے میں خاموش ہو گیا، لیکن بہت سوچ وبچار کے بعد اس نتیجے تک پہنچا کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایسے کوئی احکامات صادر کئے ہوں، تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحبہ نے بھی تردید کردی کہ انہوں نے اس قسم کے کوئی احکامات صادر نہیں کئے، عورت کے پردے کے حوالے سے اللہ کے احکامات سب پر واضع ہیں، لیکن اللہ نے ان احکامات پر عملدرآمد کیلئے کسی پولیس افسر کی ڈیوٹی نہیں لگائی، خاتون کو سیکرٹریٹ میں داخل ہونے سے روکنے والا افسر اس محکمے کا ملازم ہے جہاں عام خواتین تو درکنار وہاں ملازمت کرنے والی خواتین کی عزت بھی محفوظ نہیں۔ ہمارے آج کے کالم کا موضوع پولیس گردی کا شکار ہونے والی خواتین نہیں، ہم آپ کو آج یہ بتائیں گے کہ جس سیکرٹریٹ میں ایک پولیس افسر نے ننگے سر عورت کو اندر جانے سے روکا اس سیکرٹریٹ میں بیٹھنے والے کئی بیوروکریٹ اپنے ہی کمروں میں اپنی ہی ماتحت عورتوں کا کس وحشیانہ طریقوں سے جنسی استحصال کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ہمارے معاشرے میں آج بھی جب کسی گھرانے میں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو کتنی ہی ماؤں کے لئے طعنہ بن جاتی ہے۔ کئی لڑکیاں تو ایک جہنم (ماں باپ کے گھر) سے دوسرے جہنم (سسرال )تک آتے جاتے ہی عمر تمام کر دیتی ہیں، غربت زدہ اور لوئر مڈل کلاس گھرانوں میں عورت کو عورت ہونے کی سزا ملتی ہے، سفید پوش گھرانے میں پیدا ہونے کی سزا۔ غریب کی جھونپڑی میں آنکھ کھولنے کی سزا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان، ایک ملک، جس کی آزادی کے لئے ہزاروں بہنوں، بیٹیوں کو اپنی عصمتوں، اپنی جانوں کی قربانی دینا پڑی، آزادی کے بعد سے ابتک یہاں غربت کی کوکھ میں پلنے بڑھنے والیاں کم عمری ہی میں ذہنی طور پر بالغ ہوجاتی ہیں، بہت ذہین ہوتی ہیں غریب کی بیٹیاں، مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی ضرورتوں نے ان خاندانوں کو معدوم کر دیا ہے، جہاں لڑکیوں کی نوکری کو معیوب سمجھا جاتا تھا،اب تو بہوکو گھر لانے سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ کماتی کتنا ہے؟ کس عہدے پر ہے؟ اخبارات کے صفحات ہر روز بھرے ہوتے ہیں’’ ضرورت مندوں‘‘ کے مختصر اشتہارات سے، ضرورت ہے ایک لیڈی سیکرٹری کی، اعلی تعلیم یافتہ بھی ہو، خوش شکل بھی ہو، غیر شادی شدہ کو ترجیح دی جائے گی، مارکیٹنگ کیلئے بھی پر کشش تنخواہ پر پڑھی لکھی لڑکیوں کو تلاش کیا جاتا ہے، واجبی شکل اور واجبی تعلیم یافتہ لڑکیوں کو نوکری ملنا آسان نہیں، بھاری فیسیں لینے والے نجی اسکول بھی ٹیچر لڑکیوں کو 8 سو سے 10 ہزار روپے تک تنخواہ دی جاتی ہے،شکروں نے ہزاروں دفاتر کھول رکھے ہیں، جہاں پڑھی لکھی ضرورت مند لڑکیوں کو بٹھا کر سادہ لوح لوگوں کو بڑی بڑی رقوم سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور کئی لڑکیاں خود انہی راہوں پر چل پڑتی ہیں، بیروزگار بھائیوں کی بہنوں، بیمار باپ، بیوہ ماؤں کی بیٹیوں کو بڑے سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔ بہت ساری این جی اوز میں جو ہوتا ہے، اب جو کہانی آپ پڑھیں گے اگر اسے کوئی چیلنج کرنا چاہے تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔ ٭٭٭٭٭ وہ کسی گاؤں سے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ لاہور شہر آئی تھی، اعلی تعلیم حاصل کرنے، گاؤں میں تھوڑی سی زمین تھی، ماں تھوڑا بہت خرچہ بھجوا دیا کرتی تھی ، دونوں بہن بھائی کرائے کے مکان میں رہتے رہے، لڑکی نے یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کر نے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کر دی، کئی جگہوں پر چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کیں، این جی اوز کے لئے کام کرتی رہی، چھوٹا بھائی ابھی تھرڈ ائیر میں پڑھ رہا تھا، اسی دوران اسے ایک اچھی سرکاری نوکری مل گئی، اسے اپنے خواب پورے ہوتے دکھائی دے رہے تھے، پہلے دن آفس جانے کے لئے اس نے اچھا لباس تن زیب کیا، دفتر گئی تو سب سے پہلا احساس یہ ہوا کہ لوگ اپنی نئی لولیگ کے نہیں ایک نئی لڑکی کے منتظر تھے، باس نے پہلے ہی دن گھنٹوں بلاسبب سامنے بٹھائے رکھا، اس کے چہرے، اس کے قد و قامت، اس کے سراپا کی تعریفیں کی گئیں، ڈنرکی دعوت ملی، باس کے کمرے سے نکلی تو سب نگاہیں اس پر مرکوز تھیں، وہ محسوس کر رہی تھی جیسے چوری کرتی ہوئی پکڑی گئی ہو، دو چار دن گزرے تو چھوٹے باس نے بھی دل پشوری شروع کردی۔ اس نے تو براہ راست عشق فرمانا شروع کر دیا، یک نہ شد دو شد،، آفس میں یہ بات پھیل گئی کہ نئی لڑکی پر بڑے صاحبان میں ٹھن گئی ہے، دیکھتے ہیں کس کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے؟ اس لڑکی کے لئے زندگی پھر مشکل ہونے لگی، اس ایشو پر اس نے کچھ لوگوں سے بات کی، کچھ لوگوں سے مددچاہی، کوئی کیا کر سکتا تھا اس کے لئے؟ یہاں تو لوگ صرف اپنی نوکریوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایک جاننے والے نے مجھے یہ سارا ماجرا سنایا تو میں نے جواب دیا کہ واقعی لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ ایسے بہت واقعات ہو رہے ہیں، لیکن لڑکیاں اپنے گھرانوں اور خاندانوں کی بدنامی کے خوف سے سامنے نہیں آتیں، اس آدمی نے بتایا کہ اس نے بلا اجازت میرا آفس والا فون نمبر اسے دیدیا ہے تاکہ کوئی افتاد پڑے تو میں اسکی کوئی مدد کر سکوں، میں یہ بات سن کر چپ رہا۔ کئی ہفتوں یا دو تین ماہ بعد دوپہر دو تین بجے کے درمیان ایک سرکاری نمبر سے کال آئی، ایک لڑکی کہہ رہی تھی، دیکھیں ،یہ کیا حرامزدگی کر رہاہے اپنے کمرے میں، مجھے نوچ رہا ہے، مجھے بے لباس کرنا چاہ رہا ہے،،اور پھر لائن کٹ گئی، میں نے اس نمبر پر کال کی،تو نمبر مصروف ملا، پانچ منٹ بعد اسی سرکاری نمبر سے پھر کال آئی، مردانہ آواز تھی، مجھ سے پوچھا گیا کہ یہ کہاں کا نمبر ہے، میں نے اپنا اور اپنے آفس کا نام بتایا تو اس آدمی نے فون بند کر دیا، میں جان چکا تھا کہ پہلی اور دوسری دونوں کالیں سیکرٹریٹ سے ہی آئی ہیں، میں نے کئی بار اس نمبر کو ڈائل کیا مگر وہ بند ملا، اگلے دن اس لڑکی نے اپنے موبائل سے کال کرکے مجھے کال کرکے گزرے دن کی کہانی سنائی، اس سرکاری افسر نے میری تصدیق کرکے اس لڑکی کی جان چھوڑ دی تھی، میں نے لڑکی سے کہا، وہ یہ نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟… کیسے چھوڑ دوں یہ نوکری، آپ کو کیا پتہ کتنی قربانیاں دی ہیں، اس ملازمت کے لئے۔ کتنی راتیں بھو کے گزاری ہیں، کیا کیا نہیں برداشت کیا، کیا کیا نہیں جھیلا اس ملازمت کے لئے۔ نوٹ:باقی تفصیلات لکھنے کی سکت نہیں ہے مجھ میں…
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ