وہ شام کے وقت نیوز روم جانے کیلئے روزنامہ آزاد کی راہداری سے گزرتے تو سب ان کی جانب متوجہ ہوجاتے ، ہر نگاہ ان کا تعاقب کرتی، عباس اطہر صاحب اپنے خیالوں میں مگن سیدھے نیوز روم میں داخل ہوتے، جہاں جاتے ہوئے ان دنوں میرے جیسے طفل مکتب کو تو بہت ڈر لگتا تھا، اس زمانے میں ہر اخبار کے نیوز رومز دنیا جہان کے جینئیس لوگوں سے مزین ہوتے تھے،ایک سے بڑھ کر ایک دانشور، سوائے عالمی سیاست اور عالمی ادب و فن کے ان لوگوں کے پاس گفتگو کا دوسرا موضوع ہی نہیں ہوتا تھا، دنیا بھر کے ادیبوں، شاعروں، سیاستدانوں کی باتیں، حالات حاضرہ پر تبصرے،سیاست اور ادب میں نئے رحجانات اور انقلابات کی باتیں ، اساتذہ شعراء کے تقابل، نیوز روم میں اپنی اپنی کرسی پر براجماں وہ لوگ ایک دوسرے کو بتا رہے ہوتے کہ کس نے کون سی نئی کتاب پڑھی ہے؟ کرشن چندر اور منٹو جیسے حلیے والے نیوز ایڈیٹر عباس اطہر کے سراپا میں ایک جادو تھا،وہ سر تا پا ایک مکمل آرٹسٹ دکھائی دیتے تھے، ان کی آمد کے بعد اس روز کی تازہ خبروں پر بحث چھڑ جاتی، ایک ایک بڑی خبرپر تبصرہ ہوتا اور پھر سب اپنے اپنے کام میں مگن ہوجاتے۔ انیس سو ستر کے اس دور میں عباس اطہر صاحب کی عمر تیس اور پنتیس سال کے درمیان ہوگی، نیوز روم میں تازہ خبروں پر نظر دوڑانے کے بعد وہ چیف آرٹ ایڈیٹر عزیز اختر صاحب کے کیبن میں چلے جاتے جہاں اگلے دن کے اخبار کی لے آوٹ ڈیزائن کی جاتی ، ہر نئے دن کے اخبار کی لے آؤٹ خبروں کی نوعیت کے حساب سے روزانہ تبدیل ہوجایا کرتی تھی، میں نے عباس اطہر کے سوا دوسرا کوئی نیوز ایڈیٹر نہیں دیکھا جو اپنے ہاتھوں سے نکالے گئے اخبار سے محبوبہ کی طرح پیار کرتا ہو، اپنی محبوبہ کو اپنے ہاتھوں سے سجانے کا یہ ہنر، یہ وصف میں نے شاہ جی سے ہی سیکھا۔ اور جب تک پرنٹ میڈیا میں رہا اپنے تیار کردہ اخبار کی محبت میں ہی گرفتار رہا، دس بارہ سال بعد اخبار کا ایڈیٹر بن جانے کے باوجود میں نے کمرے اور کرسی پر بیٹھنے کی بجائے نیوز روم ہی کو ترجیح دی۔ عباس اطہر 1964 ء میں ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر لاہور سے کراچی پہنچے تھے، جہاں نذیر ناجی پہلے سے موجود تھے اور روزنامہ ،،انجام،، میں پروف ریڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے، عباس اطہر نے ’’انجام‘‘ کے نیوز ڈیسک پر نظام صدیقی کی ماتحتی میں صحافت شروع کی۔ پھر لاہور میں آمریت کے دور میں اپنے نکالے جانے تک پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے ’’روزنامہ امروز‘‘سے وابستہ رہے، ،،امروز کو سرخوں اور ترقی پسندوں کا اخبار کہا جاتا تھا، لیفٹ کے بڑے بڑے نام اس ادارے سے وابستہ رہے۔ عباس اطہر لیفٹسٹ نہ ہونے کے باوجود اس سرخ قبیلے میں شامل تھے جسے ترقی پسند ہونے کے الزام میں روزنامہ امروز اور پاکستان ٹائمز سے نکالا گیا تھا، اس قبیلے کے دوسرے افراد میں آئی اے رحمان صاحب، عبدللہ ملک اور حمید اختر نمایاں تھے، ان لوگوں نے اپنے اپنے گھر کی جمع پونجی کے ساتھ اپنا اخبار ’’ روزنامہ آزاد‘‘ نکالا تھا، یہ اخبار پہلی بارقیام پاکستان سے پہلے مجلس احرار نے اپنے نظریات کے پھیلاؤ کے لئے نکالا تھا، 1970 ء میں اس کا ڈیکلریشن شیخ حسام الدین کے معذور بیٹے شیخ ریاض الدین کے نام تھا، میں نے بھی صحافت اسی اخبار سے شروع کی۔ ’’ اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ والی سرخی عباس اطہر نے نکالی تھی، یہ عباس اطہر کی شاعرانہ اختراع تھی، اس شہہ سرخی کو بھٹو مخالفین نے تاریخ کا حصہ بنا دیا، آزاد اخبار پر شیخ مجیب الرحمان کی حمایت کی چھاپ لگ گئی تھی ، پاکستان کے دو لخت ہوتے ہی یہ اخبار مالی مسائل اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے باعث بند ہو گیا،چند ماہ بعد عباس اطہر بھٹو صاحب کے ذاتی اخبارمساوات میں چلے گئے، پھر ایک وقت آیا اور وہ اسی اخبار کے ایڈیٹر بن گئے، شاہ جی خود دشمن بنا کر جینے والے آدمی تھے، کون دوست ہے اور کون دشمن ؟ یہ فیصلے وہ رات دیر گئے کیا کرتے تھے، صبح جاگنے کے بعد وہ اپنے فیصلے یاد بھی رکھا کرتے تھے، لاہور کے صحافی دو گروپوں میں بٹ گئے تھے، انٹی عباس اطہر، پرو عباس اطہر، شاہ جی منہاج برنا صاحب کو ابتداء سے ہی اپنا دشمن گردانتے تھے، اس کی وجہ اور پس منظر سے بہت لوگ واقف بھی ہونگے ۔ عباس اطہر پر الزام رہا کہ وہ رائٹ ونگ کے لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں،۔۔۔ لیکن دوسری جانب عباس اطہر نے بے شمار روشن خیالوں کی بھی حوصلہ افزائی کی اور انہیں صحافت سکھائی بھی اور عملی راہنمائی بھی کی ، ضیاء الحق کے دور میں آزادی صحافت اور تحفظ روزگار کی مہم چلی تو شاہ جی ڈکٹیٹر کے حواریوں کے ساتھ محض اس لئے کھڑے ہو گئے کہ وہ منہاج برنا کے خلاف تھے، اور ان کا کہنا تھا کہ وہ منہاج برنا کو ماؤزے تنگ بنتے نہیں دیکھ سکتے، عباس اطہر بھٹو کے با اعتماد صحافی بھی رہے، بھٹو صاحب نے جیل میں لکھی گئی اپنی پہلی کتاب ، اگر مجھے قتل کر دیا گیا ،، کا انگریزی مسودہ اشاعت کے لئے عباس اطہر ہی کو بھجوایا تھا، مخبری پر شاہ جی مظفر شیخ اور خواجہ نذیر پکڑے گئے، ان لوگوں کو جیلوں اور شاہی قلعے کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں،بعد ازاں وہ ضمانتوں پر رہا ہو کر از خود ملک بدر ہوگئے، کئی سال کی اس ملک بدری کے دوران شاہ جی نیویارک کی سڑکوں پر لیموزین بھی چلاتے رہے، عباس اطہر پاکستان میں جدید آزاد شاعری کے بانیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں، افتخار عارف شاعری کی دنیا میں ان کے بہترین دوست تھے، شاہ جی کی شاعری کی کئی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں، اس زمانے میں ان کی ایک نظم اکثر بس اسٹاپوں پر لکھی ہوئی ملتی تھی، روزنامہ آزاد کی بندش کے بعد جب عباس اطہر مساوات میں چلے گئے تو میں ان کے پاس ملازمت کیلئے گیا، انہوں نے صاف صاف کہا کہ بندے نکالنے کے باعث ان کے ہاتھ بندھ گئے ہیں اور وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی نئی اپوائٹمنٹ کر سکیں، 1974 ء کے شروع میں انہوں نے مجھے کراچی میں ملازمت کی پیشکش کی، میں نے ہاں کہہ دی، عباس اطہر کراچی سے مساوات کے اجراء کے لئے لاہور سے جو ٹیم لے کر گئے اس میں میں بھی شامل ہو گیا، روزنامہ مساوات کراچی سے نکلا تو اسے خوب پذیرائی ملی، عباس اطہر خوش تھے، وہ اخبار کی کامیابی کی خبر فون پر لاہور کے ساتھیوں کو سنا رہے تھے،، عباس اطہر فون پر یہ بھی کہہ رہے تھے، اور تو اور خاور نعیم ہاشمی نے بھی کمال کر دیا، وہ ڈیسک پر بھی کام کر لیتا ہے، سیاسی مضمون بھی لکھ لیتا ہے اور فلمی کالم بھی لکھ رہا ہے۔عباس اطہر کی میرے لئے یہ تحسین میرے روشن مستقبل کی نوید بنی، وہ تو لاہور واپس چلے گئے، مگر مجھے بڑے حوصلے دے گئے۔کچھ مہینوں بعد مجھے لاہور یاد آنے لگا،شوکت صدیقی صاحب مجھے کراچی میں ہی رکھنا چاہتے تھے، بہت منت سماجت کے بعد وہ اس شرط پرمیرے لاہور تبادلے پر رضامند ہوئے کہ میں ہر ہفتے کراچی کے لئے لاہور کی ڈائری لکھا کروں گا، لاہور واپس آکر میں شوکت صاحب کی شرط پوری نہ کر سکا، شوکت صاحب مجھ پر بہت برہم تھے، ایک دن انہوں نے عباس اطہر کو فون پر حکم دیا کہ خاور کو واپس کراچی بھجوا دو، اسے ٹرین پر بھجوانا، جب ٹرین ملتان اسٹیشن پر رکے تو مجھے بتا دینا، عباس اطہر نے حیرانی سے پوچھا ،، ٹرین ملتان رکنے پر آپ کیا کریں گے؟شوکت صدیقی صاحب نے جواب دیا، تب میں اسے ڈس مس کر دوں گا، آج عباس اطہر صاحب کی چھٹی برسی ہے اور انہیں یاد کرنے کیلئے ان کی صاحبزادی نے لاہور پریس کلب میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کر رکھا ہے جس کے لئے خالد چوہدری نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ