بالآخر عالمی مالیاتی فنڈ سے پاکستان کا معاہدہ طے پاگیا،اب ہمیں اگلے تین سال کے دوران چھ ارب ڈالر ملیں گے اور پاکستان کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے، وزیر اعظم عمران خان کا ذہنی بوجھ بھی اتر گیا اب وہ سکون کے ساتھ عوام سے کئے گئے سارے انتخابی وعدے آسانی سے پورے کر سکیں گے بشمول پچاس لاکھ سستے گھروں اور ایک لاکھ نوکریوں کے، آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ ماضی کے معاہدوں سے یکسر مختلف ہے، ہم نے خزانے کی چابی بھی انہی کو تھمادی ہے تاکہ اگر کوئی خامی،خرابی ہوئی تو کم از کم حکومت تو بری الذمہ ہوگی، بس ایک آخری مرحلہ باقی ہے، آئی ایم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے معاہدے کی حتمی منظوری دینی ہے، دعا کریں یہ ڈائریکٹرز کہیں بھاگ نہ جائیں، اس معاہدے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کو اسٹیٹ بنک کی مکمل خود مختاری کی یقین دہانی کرادی ہے، ڈالر کے اتارچڑھاؤ پر بھی ہماری حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا، پاکستان اب کس کا ہے؟ آئی ایم ایف کا؟ عمران خان کا یا عوام کا؟ اس فیصلے کو اناؤنس نہیں کیا جائے گا، پاکستان کی ملکیت کا احساس خود آنے والا وقت دلائے گا، کیونکہ امور خزانہ اور اسٹیٹ بنک کے اختیارات سے عملی دستبرداری کی جا چکی ہے، کیونکہ نواز شریف کی بیماری کی طرح بیمار معیشت کا علاج بھی کسی پاکستانی ڈاکٹر کے پاس نہیں رہ گیا تھا، بجٹ بھی سر پر ہے،اگلے چند دنوں میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائیگا آئی ایم ایف سے طے شدہ معاہدے کے مطابق پاکستان اپنے بجٹ خسارے میں صفر اعشاریہ چھ فیصد کمی بھی لائے گا، ایک ،،خوشخبری،، یہ دی گئی ہے کہ پاکستان کو عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے بھی اضافی دو سے تین ارب ڈالر ملیں گے، قارئین کرام ! ہم نے کچھ حقائق اور کچھ خوش فہمیوں کا مرکب آپ کے سامنے رکھا، تصویر اور سکے کے دونوں رخ دیکھنا لازمی ہوتے ہیں، پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کے معاہدے پر عالمی ماہرین معیشت نے بھی سیر حاصل تبصرے کئے ہیں، یہ معیشت دان عمومی طور پر اس امر پر متفق ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری اتنی زیادہ بڑھ سکتی ہے کہ اس کے تناسب کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، غربت تو پھر مزید بڑھے گی ہی، دوسری جانب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چونکہ آئی ایم ایف ڈاکٹر کے طور پر اسلام آباد پہنچ چکا ہے ،مریض پاکستانی معیشت کو جلد یا بدیر آرام ضرور ملے گا، معاہدے میں امیدیں بھی ہیں مایوسیاں بھی، جب ہر شے پر سبسڈی ختم ہوگی تو یقیناقوت خرید بھی گھٹے گی، سرکاری اداروں کے انتظامی اخراجات کم ہونے سے مالیاتی نظام بھی منجمد ہو سکتا ہے،مستقبل میں جاری اور نئے ترقیاتی منصوبوں کیلئے پیسے دستیاب نہیں ہوں گے،مزید غیر ضروری سرکاری ادارے بند ہو سکتے ہیں، ظاہر ہے اور ہزاروں ملازمین بے روزگار ہونگے، ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ کسانوں کے لئے زرعی قرضے حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا، جناب! روپیہ مزید دس فیصد سستا ہو سکتا ہے، دس فیصد، مزید دس فیصد۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ صرف چھ ارب ڈالر قرضہ کیلئے قوم اور قومی معیشت کے دس ماہ کیوں برباد کئے گئے؟معاشی بے یقینی اتنی بڑھا دی گئی کہ سونا اور ڈالر ہی نہیں دالیں، سبزیاں بھی عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں، اسٹاک مارکیٹ کی تو عمارت ہی منہدم ہو گئی، پاکستان میں جب بھی معاشی بحران آئے، ہر حکومت ایک ،، خوشخبری،،، ضرور سامنے لائی اور وہ یہ کہ تین سو سے کم یونٹ کم خرچ کرنے والے صارفین کیلئے بجلی مہنگی نہیں کی گئی، شاید اس مکالمے سے یہ تاثر دینا مقصود ہو کہ تین سو سے کم یونٹ خرچ کرنے والے بجلی کے صارفین کیلئے کچھ مہنگا نہیں ہوا، کتنی چالاک حکومتیں تھیں پہلے والی بھی اور اب عمران خان والی بھی۔۔۔۔۔۔۔ تحریک انصاف کی حکومت معرض وجود میں آتے ہی معاملات تیزی سے عدم استحکام کی جانب بڑھنے لگے تھے، آئی ایم ایف سے معاہدے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا، مہنگائی چار سے نو فیصد تک اوپر جا چکی ہے، آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد یہ کم نہیں ہوگی اس کا گراف مزید اوپر جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ اتوار کے روز شوکت خانم میموریل اسپتال میں ہر سال کی طرح ڈونیشن کولیکشن افطارڈنر کا اہتمام کیا گیا، عمران خان ہر سال اس افطار ڈنر میں خود شریک ہوتے رہے ہیں لیکن یہ پہلا سال تھا کہ وہاں عمران خان کی بجائے وزیر اعظم عمران خان کو دیکھا گیا، پچھلے تمام برسوں میں عمران خان مکمل آزادی سے تمام مہمانوں اور ڈونرز سے مصافحہ کیلئے ان کے پاس جایا کرتے تھے، ان کا شکریہ ادا کرتے ان سے ڈونیشنز خود وصول کرتے، اسٹیج پر کھڑے ہو کر مہمانوں کو ان کے ناموں سے مخاطب کیا کرتے تھے، لیکن اس سال عمران خان،،ایک قیدی وزیر اعظم،، کے طور پر تقریب میں شریک ہوئے، پاکستان کی کوئی ایک بھی سیکیورٹی ایجنسی ایسی نہ تھی جس نے وزیر اعظم کو اپنے حصار میں نہ لے رکھا ہو، وزیر اعظم کو ایک مخصوص کرسی پر بٹھایا گیا اور خطاب تک انہیں اس کرسی سے اٹھنے بھی نہ دیا گیا، مہمان اور ڈونرز ان سے ملنا چاہتے تھے ان سے ہاتھ ملانا چاہتے تھے، تقریب میں موجود درجنوں لڑکیاں اپنے محبوب سیاستدان کے ساتھ سیلفیاں اور تصویریں بنوانا چاہتی تھیں، ایجنسیوں نے سب کے خواب توڑ دیے، وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کی سیکیورٹی بھی اہم تھے، وزیر اعظم کی اس تقریب میں موجودگی کے دوران ہی گوادر کے فائیو اسٹار ہوٹل میں دہشت گردی کی اطلاع موصول ہوئی، تقریب حسب سابق شاندار تھی، مگر کچھ ایسے لوگ اس بار نہ دیکھے گئے جو پہلے ہر سال آیا کرتے تھے، افطاری کے بعد ڈنر کا اہتمام بھی تھا مگر سیکیورٹی ایجنسیاں اتنی سرعت سے وزیر اعظم کو پنڈال سے نکال کر باہر لے گئیں کہ لوگ دیکھتے ہی رہ گئے، بہر حال اس بار بھی اس تقریب میں 20 کروڑ روپے کے قریب صدقات اور عطیات کی مد میں رقم جمع ہوئی ٭٭٭٭٭ اب آخر میں موجودہ حکومت کے ارباب اختیار سے ایک سوال، یہ سوال ہمارے بہت سارے قارئین کی فرمائش بھی ہے، لوگ پوچھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کاایک سال تو پورا ہونے والا ہے ، کیا باقی رہ جانے والے چار سالوں میں بے گھر لوگوں کیلئے پچاس لاکھ سستے گھر بن پائیں گے؟ اس کا بہتر جواب تو اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے افراد اور ادارے ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں، ہم نے بینکاری کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں کے سامنے بھی یہ اہم سوال رکھا، ان کا جواب تو کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں دکھائی دیتا، ان افراد کا کہنا ہے کہ اس وقت انٹر بنک میں ایک سال کیلئے شرح سود ساڑھے گیارہ فیصد ہے،ضابطے اور قوانین مالیاتی اداروں کو کم شرح پر سود فراہم کرنے کی اجازت نہیں دیتے، گھر بنانے کیلئے قرض لیا جائے تو شرح سود اٹھارہ فیصد ہے، آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے سے دو دن پہلے تک قومی خزانے میں تین سو پچاس ارب روپے کا شارٹ فال بھی تھا، اسٹیٹ بنک کی چابی آئی ایم ایف کے حوالے کئے جانے کے بعد قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بنکوں کی شرح سود میں مزید اضافہ ہونے والا ہے، ان سارے حالات میں شعبہ بینکاری کے ماہرین کہتے ہیں کہ گھر کی تعمیر کے واسطے بیس سال کیلئے اب پچیس لاکھ کا قرض کوئی بنک نہیں دے گا۔۔۔۔۔ یہ ایک اہم ترین سوال ہے، پاکستان کے کروڑوں بے گھر غریبوں نے وزیر اعظم عمران خان سے بہت امیدیں باندھ رکھی ہیں، عمران خان بھی اپنے وعدوں کی تکمیل کا عزم رکھتے ہیں، سستے گھروں کے پراجیکٹ کے ارباب اختیار کو ان بے گھروں کی آس کو زندہ رکھنے کیلئے اور انہیں مطمئن کرنے کیلئے ایک تفصیلی بیان جاری کرنا چاہئیے، اسی طرح ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کو ایفاء کرنے کیلئے بھی تیزی سے اقدامات کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ92نیوز)
فیس بک کمینٹ