پاکستان کے ہر شہر اور دیہات میں آپس میں لڑائی تو روز کی بات ہے، دو چار مرجائیں گے تو لاش رکھ کر ماتم کرنا بھی عمومی بات سمجھی جاتی ہے۔ پولیس والے بھی ایک آدھ کو بلا ارادہ گولی چلاکر مار دیں تو وہ گناہ کبھی معافی اور کبھی سزا بن جاتا ہے مگر جب حکم ملے کہ سامنے جو مجمع ہے وہ لوگ خدا کے نام پر کھڑے ہیں، ان پر گولی کیا ڈنڈا بھی نہ چلایا جائے، ان کا عذاب وہ جانیں۔ اب جن کے پاس کلاشنکوف ہوں۔ ان کے سامنے ڈنڈا بھی نہ چلانے والوں کا کیا حشر ہوگا۔ جواب صاف ہے سامنے آنے والا، مرگیا۔ جب بہت سے مرجائیں گے تو ان کے گھر لاٹ صاحب جاکر بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھیں گے۔ کیمرے چلیں گے۔ معصوم بچے روتے ہوئے کچھ بولیں گے۔ معاملہ صاف ہوجائےگا، پھر وہ بچے اسکول سے آکر ٹھیلے پر چنے کی چاٹ بیچیں گے۔ لوگ مزے لیکر کھائیں گے۔ پھر کیمرے آئیں گے۔ شاباش دینگے، زندگی تو اس بیوہ کی اجیرن ہوگی جسے سب لوگ صبر کا درس دینگے اور پھر ہم اخباروں میں پڑھیں گے۔ پاکستانی طالبان، جن قاتلوں کو ڈیڑھ سو بچے پشاور اسکول میں مارتے ہوئے رحم نہ آیا، آج اتنے سال گزرنے کے بعد سرکاری سطح پر ان سے مذاکرات کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری طرف ج کی اولادیں شہید ہوئی تھیں، وہ ان مذاکرات سے خائف، پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کررہے ہیں۔عدالتیں ان مظاہروں کا کیا اور کیوں نوٹس لیں کہ کمیشن کا نتیجہ آچکا ہے۔ سزائیں ہوئیں کہ نہیں۔ مجھ جیسی کم عقل کو معلوم نہیں۔
کراچی میں عدالتیں حکم عالیہ دے رہی ہیں کہ جو ٹاور ز، بلڈنگ رولز کے خلاف بنے ہیں۔ وہاں لوگ رہ رہے ہیں ان کو گرادیا جائے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لندن، امریکہ میں ایک بم مارکر بارہ منزلہ بلڈنگ دیکھتے دیکھتے رملبےکا ڈھیر ہوجاتی ہے۔ ہم پاکستانی بدسلیقہ صرف ہتھوڑے چلانا جانتے ہیں۔
بم مارکر بلڈنگیں گرانے کا تجربہ نہیں ہے۔ اس لئے کمیٹیوں پر کمیٹیاں بیٹھی رہی ہیں۔ ٹینڈر کھل رہے ہیں۔ جو آباد تھے وہ بے زبان ہیں کہ عدالت عالیہ کے احکامات ہیں۔ ان کی رقم ڈوبی، وہ بے گھر ہوئے۔ یہ انصاف اب تو اللہ کے گھر ہی ہوگا کہ جس نے بلڈنگ بنائی ہوگی۔ وہ تو بنانے کے دوران رشوتیں دیتا رہا ہوگا۔ مال سمیٹ کے جہاں بھی ہو، چین کی نیند سو رہا ہوگا۔
آج سے 25سال پہلے حکومت سندھ کو جلال چڑھا تھا اور ایم کیو ایم کی ہلڑ بازی میں بنے دفاتر اور شادی ہال گرائے گئے۔ تب بھی کسی نے نہیں پوچھا ’’مال کہاں سے آیا تھا کہ سب کو معلوم تھا کہ اس زمانے میں بھتہ فیشن تھا۔ اس لیے بلدیہ فیکٹری کا المیہ ہو کہ کوئی اور عذاب سنا ہے سزائیں سنائی گئیں؟ اسی زمانے میں متحدہ کے رہنمائوں کو دبئی کے ایکسیلریٹر پر چڑھتے اترتے ان گنہگار آنکھوں نے بھی دیکھا ہے۔ اب کوئی پوچھے غوری کہاں ہیں۔ حیدر کہاں گیا۔ یقیناً کسی دن نئے سورج کے ساتھ طلوع ہوجائیں گے۔
جب سے کورونا آیا ہے۔ ہر شہر، ہر موقع پر زوم پہ میٹنگز ہورہی ہیں۔ بین الاقوامی میٹنگوں کے زوم پہ ہونے کا سبب واضح ہے۔ یہ فیشن یا طریق اجلاس اب کورونا رہے یا نہ رہے۔ یہ تو قائم رہے گا۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر شخص اپنا بیان دیتا ہے اور پھر زوم دوسرے کی جانب چلا جاتا ہے۔ وہ جو بحث و مباحثے، چٹکلے، گپ ہوتی تھی۔ اس کا تصور بھی ہمارے بچوں کی پرورش میں شامل نہیں ہے۔ جب میرے بچے چھوٹے تھے، ہمارے دوستوں کی محفل میں وہ بھی شریک ہوتے تھے سارے ادیبوں سے دوستی تھی۔ خاص طور پر میرے بڑے بیٹے میزو کی مستنصر تارڑ سے، ایک دوسرے کے کپڑوں پر چھیڑ چھاڑ ہوتی تھی۔ احمد فراز کی چھوٹے بیٹے فیصل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور منیر نیازی تو میزو کے بال پکڑ کر کہتا تھا اصلی ہیں نا۔
یہ تہذیب اور دوسرا ہٹ، ہم سب ادیبوں کے بچوں کے ساتھ ہوتی تھی۔ مل کر کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ شاہ حسین کے میلے پہ جارہے ہیں۔ اس زمانے میں کارٹون فلمیں بھی بچے سینما گھروں میں دیکھتے تھے۔ ہمارے دوستوں کے بچوں کی سالگرہ اور آپس میں میل ملاقات ایسے تھا جیسے ایک خاندان میں ہوتا ہے۔ آج کے بچوں کے مشاغل میں موبائل نے سب سے زیادہ اہمیت حاصل کرلی ہے مگر نسلہ ٹاور سے بے گھر ہونے والے بچے کیا سوچ رہے ہونگے۔ کیا ہمارے والدین نے جو رقم لگائی وہ محنت کی کمائی نہیں تھی۔ ہمیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔ ہم سے اچھے تو جھگیوں والے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ گزشتہ 30 سال سے کاغذ چننے والے بچے، یہی کرتے کرتے، آخر چرس پینے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کی بوڑھی مائیں جھولا اٹھائے صبح سویرے کوڑھے کے ڈھیر پہ معلوم نہیں کیا ٹٹولتی ہیں۔ ان کے نصیب میں وہ بس والے بھی نہیں ہیں جو ’’کوئی بھوکا نہ سوئے‘‘ والے، ابلے ہوئے چاول تقسیم کرتے پھرتے ہیں۔ کبھی ان کی بھی سن لیں۔
مشکل یہ ہے کہ چیف جسٹس کے فیصلے میں اصلاح کاپہلو ہوتا ہے کہ بغیر قانونی ضابطہ پورا کیے، ایسے انجام کو پہنچتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب ان چھوٹے چھوٹے فلیٹوں کی فریاد کی آواز کا بھی مداوا کریں۔ ابھی تو آپ نے شہر ٹھیک کروانا شروع کیا ہے۔ ابھی تو مکہ ٹاور اور نہ جانے کتنے اور غیر قانونی اقدامات کی اصلاح کریں گے۔ یہ فلیٹوں والے غریب کمیٹیاں ڈال کر چھت حاصل کرتے ہیں۔ آپ تو غریبوں کو انصاف دلاتے ہیں۔ اس بے گھری کا مداوا بھی کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ