سب ہی سمجھتے، کہتے اور مانتے ہیں کہ زندگی کو حقیقت سمجھا جائے کہ نہیں، البتہ موت ایک حقیقت ہے۔ ہمارے ملکوں میں جیسے بچوں کی شادیاں، ادھر ادھر سے پیسے اکھٹے کرکے کردی جاتی ہیں، موت کے سلسلے میں بھی، اکثر ایسےواقعات درپیش ہوتے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں تو شیعہ فرقےکے لوگ، مردے کو قریبی امام بارگاہ میں لے جاتے ہیں۔ سارا انتظام و انصرام، وہی کرتے ہیں، یقیناً اس کیلئے ادائیگی کی جاتی ہے، مگر خاندان کے لوگ، سکون سے قرآن شریف پڑھتے ہیں اس طرح سوئم کے دن بھی یونہی باقاعدہ مجلس، تبرکات وغیرہ مہیا کردئیے جاتے ہیں۔ مگر سنی فقہ میں، کوئی باقاعدہ”Funeral house” نہیں ہے کہ اس کو اطلاع دی جائے اور وہ قیمتاً سارے انتظامات کرلیں۔ عام طور پر ہم اس سوچ کو ٹالتے رہتے ہیں۔ جب وقت پڑتا ہے تو کوئی قبر کھدوانے، بلکہ پہلے تو علاقے کی میونسپلٹی سے قبر کی جگہ لینے کو دوڑتے ہیں۔ کفن سینے اور نہلانے والے کے بندوبست کیلئے مسجد کی جانب رخ کرتے ہیں۔ ان ساری تفصیلات کے باعث، مرنے والے کا غم تو پس پشت پڑ جاتا ہے۔ سارے خاندان والے دیگر لوازمات میں مشغول ہوجاتے ہیں۔اسلام آباد یا کوئی بھی دوسرا شہر ہو، اس میں سی ڈی اے جیسا ادارہ، قبرستان کیلئے تو موجود ہوتا ہے، مگر دیگر ضروریات جو لازمی ہیں۔ ان کیلئے سی ڈی اے یا کوئی مقامی ادارہ مدد نہیں کرتا ہے۔ اس کیلئے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں انشورنس کے ذریعہ، یہ سروسز فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کیلئے موت سے پہلے ہی متذکرہ شخص پیسے جمع کرا دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ سہولت بھی نہیں ہے۔ تو پھر ذاتی یا کمرشل سطح پر ایسے ادارے موجود ہوں۔ لوگ ان سے رابطہ کریں اور زندگی کے بعد کی یہ منزل آسان ہوجائے، پسماندگان کیلئے۔خیر سے ہمارے ملک میں گھر میں جمع جوڑ کر ناگہانی وقت کیلئے، رقم محفوظ رکھنے کی اس لئے بھی عادت نہیں ہے کہ مہینے کی گزر ہونا بھی، سلیقہ مندی ہی سے آتی ہے۔
کچھ اور سنجیدہ مسئلے جن پر سوائے ڈاکٹر ادیب رضوی کے، اور کوئی توجہ نہیں دیتا ہے۔ پورے پاکستان میں ہزاروں لوگ میری طرح چاہتے ہیں کہ اپنی وفات کے بعد، فوری اپنے اعضا، مثلاً آنکھیں، گردے، دماغ donate کردیں تاکہ ان مریضوں کے کام آسکیں۔ جوان اعضا کی نایابی کی شکل میں بے موت مر جاتے ہیں۔ اب یہاں مذہبی حلقے، ایسے اقدامات کو روح کو تکلیف دینے کے مترادف سمجھتے ہیں جبکہ جامعہ الازہر نے بھی ایسی donation کو درست اور جائز قرار دیا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ وہ نامعلوم افراد جو اسپتال میں مر جاتے ہیں اور ان کا کوئی ولی وارث نہیں ہوتا ہے۔ ان کے جسم کے اعضا، میڈیکل طالب علموں کے کام آتے ہیں کہ وہ باقاعدہ جسم کی ہیئت کے بارے میں سیکھ سکیں۔ ممکن ہے میری فریاد متعلقہ ڈاکٹروں تک پہنچ سکے اور خواہشمند لوگوں کے ورثا ثابت قدمی سے اس وصیت کا احترام کریں۔ باہر کے ممالک میں تو ڈرائیونگ لائسنس بناتے وقت، ہر شخص اپنے اعضا دینے کی اجازت دے دیتا ہے۔ اگر اس بات پر اہل اختیار غور کریں تو سارے اسپتالوں کے بورڈوں سارے میڈیا ہائوسز، اپنے پروگراموں اور اخبارات پہلے صفحے پر متعلق ڈاکٹروں کے رابطے کے طریقے تحریر کردیں تو بہت سوں کا بھلا ہوگا۔اس طرح کسی لڑکے یا لڑکی کے ساتھ جنسی ہراسانی کی فوری خبر دینے کیلئے ایمرجنسی نمبر معلوم ہونے چاہئیں۔ جہاں مددگار لوگ یا عملہ، پہلے سے موجود ہو۔ آپ نے دیکھا ہم نے کچھ دن ڈیرے کی لڑکی کو برہنہ گھمانے پر احتجاج کیا۔ اس طرح ہم نے وزیرستان کی لڑکیوں کو بلا جواز مارے اور قتل کردینے پر عدالتوں کے ذریعہ، انصاف دلانے کی کوششیں کیں۔ ننھی بچیاں جو گھروں پر کام کرتی اور بیگمات کی مار کھاتی ہیں۔ ان کے مقدمے عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔
طیبہ کی طرح کا کیس، پھر وہ ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ اس طرح جیسے قصور کے بچوں کے ساتھ زیادتی کا دنیا بھر میں شور مچا، بالکل اس طرح قصور ہی میں زینب کے ساتھ جنسی زیادتی ہی نہیں۔ اس کو مارنے پر پورے ملک کے بچے سڑکوں پر نکل آئے۔ اس کے بعد بھی فیصل آباد میں ایک پندرہ سالہ بچے کا کیس اخبار میں رپورٹ ہوا۔ یہ تو ہوتا رہے گا کہ ہم نے بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے، باقی ہر شعبے اور ہر تجارت میں، ایمان نام کی کسی چیز پر نہیں عمل کرتے ہیں ۔ ایسے ایمرجنسی نمبروں کو تمام بسوں، رکشوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر مشتہر کرنا ضروری ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ایڈز کے بارے میں بھی ہمارے ملک میں کسی قسم کی تشہیر کی اجازت نہیں تھی۔ پھر جب دنیا نے دیکھا کہ شبانہ اعظمی نے اپنی تشہیری فلم میں دکھایا تھا کہ ایڈز کے بارے میں آگاہی کی کتنی ضرورت ہے یا پھر آج کل عامر خاں، بچوں کو فلم میں بتا رہے ہیں کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ جنسی زیادتی کرنے، غلط ہاتھ لگانے کی کوشش کرے، تو بچوں کو کیسے چیخنا، شور مچانا اور بھاگنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایڈز کی طرح جنسی تعلیم دینا بھی غیر اخلاقی بات سمجھی جاتی رہی۔ انجام یہ ہے کہ 2017 میں بعض مدارس میں بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 477 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ ابھی تو بات صرف رپورٹیڈ کیس کی ہے ورنہ تو گھروں میں اور اسکولوں میں بچوں کو ’’چپ، بدتمیز‘‘ کہہ کر خاموش کردیا جاتا ہے۔ سارے لکھنے والے ان سارے موضوعات پر توجہ دیں۔
فیس بک کمینٹ