جب سب شہروں میں عورتیں اور مرد، بجلی کے بل جلا رہے تھے، تواس کے جواب میں یہ منظر نامہ حکومت سامنے لے کر آئی جو دیکھنے سے پہلے یہ شعر سن لیں۔
ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے
٭ ہرروزسینکڑوں بجلی چور پکڑے جارہے ہیں۔
٭ ہرروز چینی کے بھرے گوداموں کے تالے کھولے جارہے ہیں۔
٭ ہر روز اسمگلنگ کی کروڑوں کی مالیت کونے کونے سے پکڑی جارہی ہے۔ جس میں ہرچیز شامل ہے۔
٭نجکاری کاکام جلدازجلد مکمل کرنے کےلئے نویلے وزرا میڈیا پر اعلان کررہے ہیں گویا یہی کام اولیت رکھتا ہے۔
مگر ان سارے شواہد، اعلانات اور پکر دھکڑ میں یہ واضح نہیں ہورہا کہ ان تمام کارروائیوں کے نتیجے میں غریبوں کا کیا بھلا ہوگا۔ کیا بجلی کے بلوں میں کمی آئے گی اور جن کے کنڈوں اور گھروں سے بجلی چوری پکڑی گئی ان کو کس قدر جرمانہ کیا گیا اور اس رقم سے غریب آدمی کو کچھ سہولت ملی یا بلوں میں کٹوتی ہوئی۔
تمام قسم کے چوروں کو اتنی تندہی سے پکڑے جانے سے تو یہ بات عام آدمی کے ذہن میں آتی ہے کہ سب چوریاں عملے، اسٹاف اور اعلیٰ عہدہ داروں کے علم میں تھیں۔ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ جو بات مجھ جیسے عام شخص کو برسوں سے معلوم ہے وہ آنے والی سرکار، برداشت کررہی تھی۔ بالکل اس طرح ہے کہ میراایک دوست کالا چٹا پہاڑ کے دامن میں پولیس کےسربراہ کی حیثیت سے، ہرورز ڈاکو پکڑتا تھا ۔پھر وہ ڈاکو رحیم یار خاں کے علاقے میں پکڑے جانے لگے ان شکار پور کے ملحقہ علاقوں میں ڈاکووں کے پاس وہ اسلحہ موجود ہے، جو حکومت کے پاس بھی نہیں بلوچستان میں ہمارے فٹ بالرز تک اغوا کئے گئے کمال بات یہ ہے کہ ان کے سرغنہ، ان نوابین میں شامل ہیں جن کو جب سرکار چاہے سامنےلے آئے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے علامہ اقبال کا یہ مصرعہ، آتے ہی دھرانا شروع کردیا ہے ،’ لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا‘۔ یہاں مجھے ایک صاحب کا نام یاد آرہا ہے۔ نام تھا شاید’’ واجد ضیا‘‘ یہ روز ہزاروں صفحات کے بنڈل اٹھائے نظر آتے رہے، کہا جاتا رہا ، شہادتیں اور پتہ نہیں کتنے ٹیلی فون پکڑے گئے، وہ ترقی پاکر چلے گئے، پھر ایک اور صاحب ہرشام برباد کرنے کو گھنٹوں بولتے، سنا ہے وکالت میں بھی بھولے خان تھے، بہرحال وہ بھی لندن جا پہنچے ، اب پھر، اس طرح جیسے وارث شاہ کے علاوہ بہت لوگوں نے ہیر لکھی ہے مگروارث شاہ کو قبولیت حاصل ہے، کچھ لوگ نیب کو تازہ دم ہوتا دیکھ کر، دوسری عالمی جنگ کے دوران دھرایا جانے والا مصرعہ پڑھ رہے ہیں کہ ’جرمن کی تو پوں میں کیڑے پڑیں‘۔
مگر ہزار سے اوپر کیسز کھلنے کے بعد کیا ہوگا کیاملک میں رشوت خوری، چال بازی، اسمگلنگ ، بھرے گودام اور40لاکھ افغانیوں کی داعش اور طالبان کے ساتھ مل کر، ہر روز وزیرستان اور بلوچستان میں بیگناہ لوگوں کو مارنا بند ہوجائیگا۔مہنگائی اور نوکریاں نہ ہونے کے سبب آج کی لاہور کی خبر ہے کہ ایک دن میں چالیس ڈاکے پڑے ہیں۔کراچی میں تو ایسے واقعات کے جواب میں نو جوان کہتے ہیں حکومت خود کھائےجاتی ہے، ہمارے گھر والو ں کو بھی تو روٹی چاہئے۔
پہلے16ماہ والے، گزشتہ ساڑھے تین سال کی رسوائیاں پھرولتے رہے ۔اب پتہ چل رہا ہے کہ16ماہ والے ، سادگی سادگی پکارتے مرکز میں اور صوبوں میں مقررفنڈز 16.15ٹریلین زیادہ خرچ کرکے گئے ہیں ہر وزیر نے اتنے دورے کئے کہ پاکستان کا نام اوپر لے کر جائیں ان کی تفصیل بھی آچکی ہے، ابھی ایک مہینے میں چین دیکھنے کے بہانے او ر تین ماہ کے وزیر اعظم پر دس دن کا بیرونِ ملک خرچہ کہاں سے آیا۔ جبکہ سعودی اور دیگر خلیجی ممالک نے پیغام بھیجا ہے کہ اب کوئی بھی پاکستانی سربراہ یا کوئی توپ شخصیت پیسے مانگنے نہ آئے۔
ابھی پچھلے ہفتے ایک دستاویزی فلم غیر سرکاری طور پر بنائی گئی، مگر سرکاری طور پر دکھائی گئی اور سوبندوں کیلئے کھانے کا بندوبست ،یہ ولیمہ کس لئے تھا واہ کیا سادگی اور بچت ہے۔
عمران اور ڈار صاحب مصنوعی طریقے پر ڈالر کی کم قیمت دکھاتے اور نوٹ چھاپتے رہے۔ اب جبکہ ساری پارٹیوں کے سارے راز اور کرپشن کھل کر عدالتوں کےسامنے آگئی ہے۔ بہتر نہ ہوگا کہ اول تو سیاست کےکچھ اصول بنائے جائیں، مگر کیا فائدہ، آخر دس سالہ معاہدہ کرکے خود گئے تھے وہ بھی سعودی محل میں رہے، پاکستان واپس آنے کی کتنی تگ ودو کی ۔ ویسے بھی ان سب کے کرتوت45فی صد ،نئی نسل پر ظاہر ہوچکے ہیں۔ اس لئے شاید یہ مناسب ہو کہ اول تو سیاست دانوں کیلئے عمر کی حد ہونی چاہئے۔ہرچند ہنری کسنجر سوسال کی حد بھی طے کرچکے ہیں، مگر ابھی مصالحانہ رویوں میں امریکہ میں سب سے آگے ہیں۔ ہمارے ملک کے بزرگ سیاست دان، آج تک نہیں سمجھے بلکہ سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو، کونسا سیاست دان ہے جسکی ملیں، فیکٹریاں ، گودام اور زمینیں نہیں۔ جناب چیف جسٹس صاحب، کوئی قانون، ان سب پرلاگو کر یں کہ اس وقت الیکشن پھر مذاق نہ بن جائیں، الیکشن کمیشن نے بھی صوبائی انتخابات کیلئے ایک کروڑ اور قومی کیلئے 5کروڑ کی حدرکھی ہے۔ یہ صرف کاغذی باتیں ہیں ۔ ہنرمندوں کو لیپ ٹاپ نہیں۔ کام چاہئے جس میں عورت، مرد دونوں شامل ہوں ہم پہلے ہی بھک منگوں کی قوم بن چکے ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)جب سب شہروں میں عورتیں اور مرد، بجلی کے بل جلا رہے تھے، تواس کے جواب میں یہ منظر نامہ حکومت سامنے لے کر آئی جو دیکھنے سے پہلے یہ شعر سن لیں۔
ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے
٭ ہرروزسینکڑوں بجلی چور پکڑے جارہے ہیں۔
٭ ہرروز چینی کے بھرے گوداموں کے تالے کھولے جارہے ہیں۔
٭ ہر روز اسمگلنگ کی کروڑوں کی مالیت کونے کونے سے پکڑی جارہی ہے۔ جس میں ہرچیز شامل ہے۔
٭نجکاری کاکام جلدازجلد مکمل کرنے کےلئے نویلے وزرا میڈیا پر اعلان کررہے ہیں گویا یہی کام اولیت رکھتا ہے۔
مگر ان سارے شواہد، اعلانات اور پکر دھکڑ میں یہ واضح نہیں ہورہا کہ ان تمام کارروائیوں کے نتیجے میں غریبوں کا کیا بھلا ہوگا۔ کیا بجلی کے بلوں میں کمی آئے گی اور جن کے کنڈوں اور گھروں سے بجلی چوری پکڑی گئی ان کو کس قدر جرمانہ کیا گیا اور اس رقم سے غریب آدمی کو کچھ سہولت ملی یا بلوں میں کٹوتی ہوئی۔
تمام قسم کے چوروں کو اتنی تندہی سے پکڑے جانے سے تو یہ بات عام آدمی کے ذہن میں آتی ہے کہ سب چوریاں عملے، اسٹاف اور اعلیٰ عہدہ داروں کے علم میں تھیں۔ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ جو بات مجھ جیسے عام شخص کو برسوں سے معلوم ہے وہ آنے والی سرکار، برداشت کررہی تھی۔ بالکل اس طرح ہے کہ میراایک دوست کالا چٹا پہاڑ کے دامن میں پولیس کےسربراہ کی حیثیت سے، ہرورز ڈاکو پکڑتا تھا ۔پھر وہ ڈاکو رحیم یار خاں کے علاقے میں پکڑے جانے لگے ان شکار پور کے ملحقہ علاقوں میں ڈاکووں کے پاس وہ اسلحہ موجود ہے، جو حکومت کے پاس بھی نہیں بلوچستان میں ہمارے فٹ بالرز تک اغوا کئے گئے کمال بات یہ ہے کہ ان کے سرغنہ، ان نوابین میں شامل ہیں جن کو جب سرکار چاہے سامنےلے آئے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے علامہ اقبال کا یہ مصرعہ، آتے ہی دھرانا شروع کردیا ہے ،’ لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا‘۔ یہاں مجھے ایک صاحب کا نام یاد آرہا ہے۔ نام تھا شاید’’ واجد ضیا‘‘ یہ روز ہزاروں صفحات کے بنڈل اٹھائے نظر آتے رہے، کہا جاتا رہا ، شہادتیں اور پتہ نہیں کتنے ٹیلی فون پکڑے گئے، وہ ترقی پاکر چلے گئے، پھر ایک اور صاحب ہرشام برباد کرنے کو گھنٹوں بولتے، سنا ہے وکالت میں بھی بھولے خان تھے، بہرحال وہ بھی لندن جا پہنچے ، اب پھر، اس طرح جیسے وارث شاہ کے علاوہ بہت لوگوں نے ہیر لکھی ہے مگروارث شاہ کو قبولیت حاصل ہے، کچھ لوگ نیب کو تازہ دم ہوتا دیکھ کر، دوسری عالمی جنگ کے دوران دھرایا جانے والا مصرعہ پڑھ رہے ہیں کہ ’جرمن کی تو پوں میں کیڑے پڑیں‘۔
مگر ہزار سے اوپر کیسز کھلنے کے بعد کیا ہوگا کیاملک میں رشوت خوری، چال بازی، اسمگلنگ ، بھرے گودام اور40لاکھ افغانیوں کی داعش اور طالبان کے ساتھ مل کر، ہر روز وزیرستان اور بلوچستان میں بیگناہ لوگوں کو مارنا بند ہوجائیگا۔مہنگائی اور نوکریاں نہ ہونے کے سبب آج کی لاہور کی خبر ہے کہ ایک دن میں چالیس ڈاکے پڑے ہیں۔کراچی میں تو ایسے واقعات کے جواب میں نو جوان کہتے ہیں حکومت خود کھائےجاتی ہے، ہمارے گھر والو ں کو بھی تو روٹی چاہئے۔
پہلے16ماہ والے، گزشتہ ساڑھے تین سال کی رسوائیاں پھرولتے رہے ۔اب پتہ چل رہا ہے کہ16ماہ والے ، سادگی سادگی پکارتے مرکز میں اور صوبوں میں مقررفنڈز 16.15ٹریلین زیادہ خرچ کرکے گئے ہیں ہر وزیر نے اتنے دورے کئے کہ پاکستان کا نام اوپر لے کر جائیں ان کی تفصیل بھی آچکی ہے، ابھی ایک مہینے میں چین دیکھنے کے بہانے او ر تین ماہ کے وزیر اعظم پر دس دن کا بیرونِ ملک خرچہ کہاں سے آیا۔ جبکہ سعودی اور دیگر خلیجی ممالک نے پیغام بھیجا ہے کہ اب کوئی بھی پاکستانی سربراہ یا کوئی توپ شخصیت پیسے مانگنے نہ آئے۔
ابھی پچھلے ہفتے ایک دستاویزی فلم غیر سرکاری طور پر بنائی گئی، مگر سرکاری طور پر دکھائی گئی اور سوبندوں کیلئے کھانے کا بندوبست ،یہ ولیمہ کس لئے تھا واہ کیا سادگی اور بچت ہے۔
عمران اور ڈار صاحب مصنوعی طریقے پر ڈالر کی کم قیمت دکھاتے اور نوٹ چھاپتے رہے۔ اب جبکہ ساری پارٹیوں کے سارے راز اور کرپشن کھل کر عدالتوں کےسامنے آگئی ہے۔ بہتر نہ ہوگا کہ اول تو سیاست کےکچھ اصول بنائے جائیں، مگر کیا فائدہ، آخر دس سالہ معاہدہ کرکے خود گئے تھے وہ بھی سعودی محل میں رہے، پاکستان واپس آنے کی کتنی تگ ودو کی ۔ ویسے بھی ان سب کے کرتوت45فی صد ،نئی نسل پر ظاہر ہوچکے ہیں۔ اس لئے شاید یہ مناسب ہو کہ اول تو سیاست دانوں کیلئے عمر کی حد ہونی چاہئے۔ہرچند ہنری کسنجر سوسال کی حد بھی طے کرچکے ہیں، مگر ابھی مصالحانہ رویوں میں امریکہ میں سب سے آگے ہیں۔ ہمارے ملک کے بزرگ سیاست دان، آج تک نہیں سمجھے بلکہ سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو، کونسا سیاست دان ہے جسکی ملیں، فیکٹریاں ، گودام اور زمینیں نہیں۔ جناب چیف جسٹس صاحب، کوئی قانون، ان سب پرلاگو کر یں کہ اس وقت الیکشن پھر مذاق نہ بن جائیں، الیکشن کمیشن نے بھی صوبائی انتخابات کیلئے ایک کروڑ اور قومی کیلئے 5کروڑ کی حدرکھی ہے۔ یہ صرف کاغذی باتیں ہیں ۔ ہنرمندوں کو لیپ ٹاپ نہیں۔ کام چاہئے جس میں عورت، مرد دونوں شامل ہوں ہم پہلے ہی بھک منگوں کی قوم بن چکے ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ