کوئٹہ اورکابل میں بس ایک چیز کامن ہے۔ بڑے ہوٹل میں ٹھہرو تو واپسی پہ پیٹ پکڑ کر آؤ اور یوں مچھلی کا ذائقہ آپ کئی دن تک بھول نہیں سکتے ہیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا کہ مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات‘‘ ورنہ کوئٹہ تو دوستوں کا دوست ہے۔
کوئٹہ میں سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں یوں تو بین الاقوامی دو روزہ خواتین کانفرنس تھی۔ البتہ معلوم نہیں پروفیسرز کی خواہش تھی کہ بچیوں کی۔ یہ بھی معلوم کر کے حیرانی ہوئی کہ یہ پانچویں کانفرنس ہے، لطف کی بات یہ تھی کہ ٹی وی اینکر زکو باقاعدگی سے ہر سال بلایا جارہا تھا اور وہ بھی مرد حضرات۔ کہتے ہیں کہ فاصلے اس طرح دور ہوں گے کہ خواتین و حضرات میں مکالمہ ہوگا۔ مگر یہ تو کالج کے لیکچرز کا سا ماحول تھا۔ یہ کمال بات تھی کہ انتظام بہت اچھا، یونیورسٹی کی وائس چانسلر محترمہ رخسانہ کی شگفتہ شخصیت اور انتظامات کے باعث تھا۔ باقی پروفیسرز بھی چند لمحوں میں دوست بن گئیں کہ ہم سب کی سوچ ایک تھی اور وہ بھی یہ کہ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے، سب سربکف ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند سال پہلے یونیورسٹی کی بس میں خودکش بمبار نے گھس کر ایسی ظالمانہ حرکت کی کہ کئی بچیاں شہید ہوگئی تھیں۔
اس طرح کانفرنس کرنا مستحسن اقدام ہے مگر اس کو اگر یوں کہا جائے کہ وہ خواتین جو ہمارے پسماندہ علاقوں سے چراغوں کی طرح فروزاں ہوکر نکلی ہیں۔ وہ بتائیں کہ کیا پتھر نہ ان کی جانب اٹھائے گئے اور کس طرح یہ ہے کہ آج اس سال میں بلوچستان میں8اسسٹنٹ کمشنر نوجوان لڑکیاں مقرر کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بھی خاتون ہیں۔ ایک خاتون افسر نے کہا کہ مجھے کہیں اور بھیج دیں کہ یہاں کے لوگ بہت تنگ کررہے ہیں۔قبائلی لوگوں کیلئے، یقیناًعورت افسر کو برداشت کرنا واقعی محال ہے، مگر مجھے یاد آرہا ہے کہ آخر راحیلہ درانی نے بطور اسپیکر بڑے حوصلے کے ساتھ ساری کارروائی چلائی اور سرخرو رہی۔ تو آخر معاشرہ بدل رہا ہے کہ یونیورسٹی میں کئی ہزار بچیاں پڑھنے کے لیے آرہی ہیں۔ ویمن یونیورسٹی کے کیمپس بھی دوسرے شہروں میں بنائے گئے ہیں کہ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم اور رہائش کا بندوبست بھی ہو۔
ویمن یونیورسٹی سے لے کر ایئر پورٹ تک دو رویہ سڑک تک نہیں بنی ہوئی۔ ٹرک ،رکشہ اور گدھا گاڑیاں خوب ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے چلتے ہیں۔ گرد کیا اڑتی ہے، وہ تو گزشتہ حکومت کی کارکردگی کا آئینہ بنی ہوئی ہے۔ آج کی حکومت کا یہی جواب ہوگا۔ کب تک ایسا جواب چلے گا۔
کوئٹہ آؤ اور اپنے شاعر دوستوں سے ملاقات نہ ہو یہ تو ممکن نہیں۔ چونکہ کوئٹہ میں آج کل بھی سات گھنٹے بجلی بند ہوتی ہے۔ اس لیےغنیمت جانا کہ میں ان معزز شعرا کو اپنے کمرے میں ہی بلالوں۔ ان کی عنایت کہ وہ اس بلاوے پہ چلے آئے اور پھر شام سے رات، شعر سننے سنانے میں اتنی پر لطف رہی کہ میرے سر کا درد بھی غائب ہوگیا تھا۔
یوں تو پچھلے دنوں چیف منسٹر بلوچستان نے زیارت میں ایک میلے کے دوران کہا کہ ہر شہر میں میلے کیے جائیں گے۔ مگر ہمیں ملاکھڑا نہیں مکالمہ چاہیے۔ نوجوانوں کے دلوں میں جو سوالات ہوں، ان کا جواب دیا جائے۔ ذیشان بگٹی جیسے نوجوان سامنے آئیں اور نوجوانوں کے سوالوں کے جوابات دیں کہ فی الوقت ، ڈاکٹر مالک اور بزنجو انقلاب چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔
کوئٹہ میں کام کرنے والے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے سربراہ جسٹس کو ملی اس طرح کام کررہے ہیں کہ ممتحن بھی خود، منصف بھی خود اور اس عمر میں رات گئے تک، نوجوان نسل خاص کر خواتین ڈاکٹرز، پروفیشنلز، وکلاء ، ایڈمنسٹریشن میں سامنے لارہے ہیں۔ میں نے ایک شکایت کی کہ پنجاب بار ایسوسی ایشن جو کہ عاصمہ جہانگیر کی صدارت میں جرأت مند تھی۔ انہوں نے 2018ء میں لکھا ہے ’’جس قوم نے عورت کو عزت دی اور ضرورت سے زیادہ آزادی دی، وہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر پشیمان ہوئی۔‘‘ کرد صاحب سے لے کر کوہلی صاحب تک، یہ جملہ پڑھ کر، نہ صرف افسوس کرنے لگے بلکہ اس کے خلاف بیان دینے کی بات بھی کی۔ یہ فقرہ زمانہ قدیم میں نہیں، 6 اکتوبر 2018ء کو لکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی سربراہ شیریں مزاری اور وکیل حضرات جس میں خواتین بھی شامل ہوں۔ اس کے خلاف نہ صرف بیان دیں بلکہ ایسی ذہنیت کی مذمت بھی کریں۔ اس وقت ہمارے چیف جسٹس ہر موضوع پر بول رہے ہیں۔ آخر پنجاب بار کونسل کے اس فقرے کو انہوں نے نظر انداز کیسے کردیا۔ وہ تو معاشرے کے ہر طبقے کو باشعور کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں۔ اگر وکیل ہی رجعت پسند ہوں گے تو انصاف کسے اور کیسے ملے گا۔ پہلے بھی کسی جج نے کہا تھا کہ آپ لوگ یعنی خواتین وکیل بن ٹھن کر آئیں گی تو پھر آنکھیں تو آپ کی جانب اٹھیں گی۔ پتہ نہیں کس جج کے چشمے کا نمبر کمزور تھا، ورنہ تمام وکلا خواتین سفید کپڑے اور کالا کوٹ پہنے ہوتی ہیں شاید دیکھنے والی نظروں میں حجاب نہیں رہا۔
کوئٹہ کے اس بڑے ہوٹل میں، ہمیشہ ورلڈ ایجنسیز کے نمائندے بیٹھے اور پیٹ بھر کر ناشتہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلوچستان حکومت انہیں بلاکر بتائے کہ یہ اپنے فنڈز کہاں اور کیسے خرچ کریں کہ مجھے تو 50برس ہوگئے ہیں۔ ان اداروں کو آتے جاتے دیکھتے، بڑے ہوٹلوں اور بڑی فور وہیل گاڑیوں میں سفر کرتے دیکھتے۔ بلوچستان میں خاک اڑ رہی ہے، کوئٹہ کیا پورے علاقے میں سوکھا پڑا ہے۔ ایک زمانے میں بلوچستان کی مٹی کی سوکھی پہاڑیوں پر ہیلی کاپٹرز سے بیج گرائے گئے اور پھر ہیلی کاپٹرز ہی سے پانی بھی چھڑکایا گیا تھا۔ شمالی علاقہ جات میں پہاڑوںکی زمین کے قریب حصوں میں لوگ فصلیں اگاتے اور گھر کے لیے اناج پیدا کرتے ہیں۔ یہ سوکھا جو تھرپارکر سے بلوچستان تک پھیلا ہے۔ اس کا علاج یہ فنڈنگ ایجنسیوں اور بڑی بڑی تنخواہوں والے نہیں کرسکتے۔ اپنی حکومت میں ایک تو خواتین کو شامل کریں اور مضبوط بنائیں۔ پھر دیکھیں یہ فنڈ کیسے ترقی کا سبب بنیں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ