جب چینیوں نے اپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کھولی تو ہماری خوش فہم قوم نے علامہ اقبال کے مصرعے کو سچ سمجھا کہ ’’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘‘۔ ہم نے یہ بھی سوچا کہ جس ملک کے لوگ ماؤزے تنگ کے جاتے ہی کولا پی اور شنگھائی کو شکاگو سے زیادہ ترقی یافتہ شہر بناسکتے ہیں تو وہ ہماری ترقی میں حصہ ڈالیں گے، سو قوم نے یہ کڑوی گولی اس طرح قبول کی کہ مغلوں کی عیاشیوں کے بعد انگریز نے آکر کم از کم کالج اور یونیورسٹیاں بنانا شروع کیں تو دیوار چین والے لوگ، ہم جیسی کام نہ کرنے کی خواہش بے پناہ رکھنے والی قوم کو چینی کھانے کے شوق کو تیز کرنے کے بجائے کم از کم کمرے سے نکلتے ہوئے لائٹ بند کرنا تو سکھادیں گے۔ مگر وہ تو ہم سے ہی وہ سب برائیاں سیکھنے میں مشاق ہو گئے کہ جس کو بیان کرتے ہوئے عذر کا وہ زمانہ یاد آگیا، جب لکھنو کے کوٹھوں کی شہزادیاں نیپال میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئی تھیں۔ ہم انڈیا، پاکستان اور سری لنکا والے، مشرق وسطیٰ میں عورتوں کی تجارت کرکے، بڑے بڑے محل بنا چکے تھے اور اب ہاتھ میں تسبیح تھی کہ چینی ہم سے بھی دس قدم آگے نکل گئے اور غریب پاکستانی معصوم لڑکیوں کو شادی کے بہانے اسمگل کرنا اور کوٹھے کھلوانا شروع کردیئے۔ جہاں تک پاکستانیوں کے اس ذلیل کام میں شریک ہونے کا تعلق ہے تو ہم تو حج پر جاتے ہوئے بھی آئس ڈرگز اسمگل کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے، آپ کو یاد دلائوں کہ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد وسط ایشیائی مسلم ریاستوں کی عورتوں کی اسمگلنگ، خریدوفروخت میں بھی ہم سب سے آگے تھے۔ ان دنوں کراچی اور لاہور کے ہوٹلوں میں کسی شریف شخص کو ٹھہرنے کی گنجائش نہیں ملتی تھی۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ چینی، پاکستانی لڑکی سے باقاعدہ شادی کرنے کے لئے بظاہر مسلمان بھی ہو جاتا ہے۔ گلے میں گیندے کے پھول پہنے مسکراتا رہتا۔ ہمارے معصوم اور غریب ماں باپ کو تو لڑکی کی شادی کی فکر اسی لمحے سے شروع ہوجاتی ہے جب لڑکی ذرا سا قد نکالتی ہے اور ماں ڈانٹ کر کہتی ’’دوپٹہ صحیح سے لو‘‘ پھر یہ موقع تو کمال جنت کا تھا کہ رشتے کرانے والے پاکستانیوں نے شرافت دکھاتے ہوئے ڈرامائی فقرہ بولا ’’یہ بہت پیسےوالے ہیں، انہیں جہیز وغیرہ کچھ نہیں چاہئے‘‘۔ معصوم ماں باپ تو اور بھی خوش ہو گئے کہ ایک تو بیٹی دوسرے ملک جارہی ہے اور یہ لوگ تو اتنے شریف ہیں کہ اپنے پاس سے پچاس ہزار روپے بھی دیکر جارہے ہیں۔
ڈرامے کا دوسرا سین اس وقت شروع ہوا جب چند لڑکیوں نے پاکستان کے سفارت خانے اور پولیس دونوں سے کسی طرح چھپ کر رابطہ کیا، کوئی ان کو تالے میں بند کرکے چلا جاتا تھا، کوئی کوٹھا گیری کروانا شروع کردیتا تھا اور پھر یہ ڈرامہ بقول رسا چغتائی ’’ایک کھلا، ایسا کھلا‘‘۔
حال ویسے برطانیہ کیا امریکہ اور یورپی ممالک میں پلی ہوئی بیٹیوں کے ساتھ، خاندان والے یا تو اسے پاکستان بھیج دیتے اور کوئی کم پڑھا لکھا لڑکا مل جائے تو شادی کرکے، لڑکے کو وہیں بلا لیتے ہیں۔ ان آزاد آبادیوں میں جا کر وہ لڑکا نوکری سے زیادہ فیشن سیکھتا، پب میں جانے کا شوق پورا کرتا ہے اور اگر لڑکی اس کو کام کرنے کا کہے تو الٹا مارپیٹ کا ڈرامہ شروع ہوجاتا تھا اور ہے۔ اس لئے ہر ملک میں یوں ستائی ہوئی لڑکیوں کے لئے پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں۔ ہمارے لکھنے والے ساقی فاروقی، بیپی سڈوا، عمر حنیف، کاملہ شمسی اور دیگر انگریزی میں لکھنے والوں نے ان اذیتوں کو رقم کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم اکیلے نہیں۔ جنسی غلامی جتنی افریقہ کے ممالک میں ہے، اتنی ہمارے یہاں کم تو نہیں مگر ایک بات ہے ہماری لڑکیاں میڈیا اور سوشل میڈیا، ٹی وی کے ڈرامے دیکھ کر ذرا باشعور ہوگئی ہیں۔ جب سامنے اذیت ہو تو کبھی چالاکی اور کبھی قانونی جنگ اور سفارت خانے کے ذریعے اس قید سے نکلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ افریقی ممالک میں تو چینی غلامی کو ایک طرح قانونی حیثیت حاصل ہے۔ لڑکا، لڑکی کو چھوڑتے ہوئے ایک فہرست پکڑا دیتا ہے کہ میں نے تمہارے اوپر اتنی رقم خرچ کی ہے۔ اب چاہے کوٹھے پر بیٹھ یا کسی اور کی غلامی کرو، مجھے یہ رقم واپس چاہئے۔
ابھی رپورٹ ہوا ہے کہ امریکی فوج میں شامل خواتین کو بھی جنسی ہراسانی کا سامنا ہوتا ہے، ابھی وہاں ہمارے ملک کی طرح خواتین عدالتوں کی سمت کم ہی جاتی ہیں مگر یہ ہولناک خبریں عالمی سطح پر اجاگر ہو رہی ہیں۔
اب آجائیں پاکستان میں روحانیت کے نام پہ، بڑے سیاستدان ہوں کہ ان کی پیری بھی خوب چلتی ہے۔ جس دن عرس ہوتا ہے، لوگ اجناس کی بوریاں، جانوروں کے ریوڑ چڑھاوا بنا کر دیتے ہیں۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہ رہے، چڑھاوا مزار پر ضرور چڑھتا ہے۔ لوگ بابا دھنکا سے لیکر کوہالہ کی مشکل ترین پہاڑی پر چڑھ کر دم کیا ہوا پانی پینے اور مرض ختم کرانے کے لئے جاتے ہیں۔ غالب تو حیران ہوکر جگر پیٹنے کا کہہ دیتے تھے۔ ہم کیا کہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ