جنوری 1977 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عام انتخابات کا اعلان کیا اور کچھ دن بعد سری لنکا کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ اس ملک کے نجومیوں کی شہرت عالم گیر تھی۔ انھوں نے میزبان وزیراعظم مسز بندرا نائیکے سے فرمائش کی کہ ان کی ملاقات کچھ نجومیوں سے کرا دی جائے۔ یہ ملاقات صرف دلچسپ اور یادگار ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ میں بھی اس کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے سامنے سوال رکھا کہ میں نے آئندہ عام انتخابات کے لیے سات مارچ 1977 کی تاریخ کا انتخاب کیا ہے، کیا یہ دن میرے لیے اچھا ثابت ہو گا؟
نجومیوں نے حساب لگایا اور خاموش ہو گئے، وزیر اعظم حیران ہوئے اور پوچھا کہ ’آپ لوگ کچھ کہتے کیوں نہیں؟‘ نجومی پھر بھی خاموش رہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا اصرار جاری رہا، اس پر ایک بزرگ نجومی نے کہا: ’تاریخ کا اعلان تو آپ کر چکے، اب ہم اس بارے میں کیا رائے دے سکتے ہیں۔‘
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ مختصر جواب سنا اور فکر مندی سے سر ہلانے لگے جیسے ان سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہو۔ 1977 کے انتخابات اپنے مقررہ وقت سے کچھ پہلے کرائے گئے تھے۔ اس فیصلے کے پس پشت کئی عوامل کار فرما تھے۔ ان میں ایک یہ بھی تھا کہ حزب اختلاف اس وقت بکھری ہوئی اور انتشار کا شکار ہے، ایک ایسی کیفیت میں عام انتخابات کا اچانک اعلان اس کے سر پر بم کے کسی گولے کی طرح گرے گا اور وہ مزید انتشار کا شکار ہو کر فنا کے گھاٹ اتر جائے گی۔سیاسی میدان ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں ہی رہے گا اور وہ اپنی دیرینہ خواہش کے مطابق دو تہائی اکثریت حاصل کر سکیں گے۔
پاکستان قومی اتحاد کے سیکریٹری جنرل پروفیسر غفور احمد نے لکھا ہے کہ اس خود اعتمادی کی وجہ بھی یہی تھی، ذوالفقار علی بھٹو کی اطلاعات اور اندازہ یہ تھا انتخابات کا اعلان ہوتے ہی حزب اختلاف کے پارلیمانی اتحاد متحدہ جمہوری محاذ کا رہا سہا ڈھانچہ بھی بکھر جائے گا اور ان کی جوتیوں میں دال بٹنے لگے گی۔
پیپلز پارٹی اسی اندازے کی بنیاد پر خاموشی کے ساتھ انتخابی مہم چلائے ہوئے تھی۔ بظاہر حالات اسی قسم کے دکھائی دیتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ حزب اختلاف نے اپنی اسی کمزوری کو بڑی حکمت سے طاقت میں تبدیل کر دیا تاکہ ذوالفقار علی بھٹو انتخابات کا اعلان فوراً کر دیں۔ اپنی اس حکمت عملی کے تحت حزب اختلاف نے کسی قسم کا ردعمل ظاہر کیے بغیر اپنے اختلافات کا تاثر برقرار رہنے دیا۔
یہاں تک کہ حکومت انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں یکسو ہو گئی اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے جنوری 1977 میں اعلان کر دیا کہ سات مارچ 1977 کو عام انتخابات کرا دیے جائیں گے۔جیسے ہی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا، حزب اختلاف ڈرامائی طور پر متحد ہو گئی اور پاکستان قومی اتحاد کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ مولانا کوثر نیازی اور راؤ رشید کے مطابق عمومی تاثر یہی تھا کہ حزب مخالف کے درمیان اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ ان کے اتحاد کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ مولانا نورانی کی جمیعت علمائے پاکستان اور اصغر خان کی تحریک استقلال جو اتحاد میں 50 فیصد پارلیمانی نشستوں کے حصول کی دعویدار تھیں، بظاہر اتنا سخت مؤقف اختیار کرتی تھیں کہ لگتا تھا کہ یہ اتحاد ہو بھی گیا تو پارلیمانی نشستوں کی تقسیم کے مرحلے پر ہی دم توڑ جائے گا۔ذرائع ابلاغ کے توسط سے دیے جانے والے اس تاثر کے برعکس حقیقی صورتحال اس سے بہت مختلف تھی۔
ممتاز صحافی عظیم چوہدری ان دنوں طلبہ سیاست میں سرگرم تھے اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پاکستان قومی اتحاد کی انتخابی مہم چلانے والے کارکنوں اور رہنماؤں میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’لاہور سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست جمیعت علمائے پاکستان کے حصے میں آئی تھی لیکن اس نشست پر اسلامی جمیعت طلبہ سے تعلق رکھنے والے پنجاب یونیورسٹی کے سابق صدر مسعود کھوکر نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے تو مولانا شاہ احمد نورانی نے انھیں ہی اپنا امیدوار تسلیم کر لیا۔‘
’ذوالفقار علی بھٹو یہ جان ہی نہ سکے کہ ان کی حزب اختلاف کے درمیان ہم آہنگی اس قدر گہری ہے، اگر انھیں یہ اندازہ ہو جاتا تو تاریخ مختلف ہوتی، شاید یہی سبب تھا کہ حزب اختلاف نے انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک حالات کو اسی طرح مبہم رکھا۔‘
ذوالفقار علی بھٹو کے پُرانے ساتھی اور ایک زمانے میں ان کے جانشین کی شہرت رکھنے والے سیاستدان اور پنجاب کے سابق گورنر و وزیر اعلیٰ ملک غلام مصطفیٰ کھر اس تاثر کی تصدیق بڑے دلچسپ انداز میں کرتے ہیں۔
’ذوالفقار علی بھٹو اس ٹریپ میں کیسے آگئے؟‘
میں نے جب یہ سوال اُن سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’ویسے تو حزب اختلاف کے قائدین سب ہی ہمارے جانے پہچانے تھے، وہ اتنی صلاحیت نہیں رکھتے تھے کہ وہ کوئی ایسی باریک حکمت عملی اختیار کر سکیں لیکن اگر ایسا تھا تو یہ منصوبہ امریکیوں نے بنایا تھا کیوںکہ اپوزیشن نے اپنی تمام توقعات فوج سے وابستہ کر رکھی تھیں یا پھر امریکہ سے۔‘
مگر حزب اختلاف عین ان ہی دنوں انتخابات کے حق میں کیوں تھی؟ اس پیچیدہ سوال کا جواب بھی مصطفیٰ کھر ہی دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’انتخابات کرانے کے لیے وہ وقت انتہائی نامناسب تھا کیوںکہ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت اپنی غیر مقبولیت کی معراج پر تھے۔ اس کے علاوہ وہ کارکن اور قائدین جو پاکستان پیپلز پارٹی کی اصل طاقت کی حیثیت رکھتے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ان کی وابستگی غیر متزلزل تھی۔‘
’وہ گذشتہ پانچ چھ برس کے اقتدار کے دوران پارٹی کی پچھلی صفوں میں دھکیلے جا چکے تھے یا پھر مایوس ہو کر غیر فعال ہو چکے تھے اور پارٹی میں ایسے لوگ اہمیت اختیار کر گئے تھے جو ہمیشہ طاقت کے ساتھ چلتے ہیں، یہ وہی لوگ تھے جن میں سے بیشتر کو 1977 کے عام انتخابات میں ٹکٹ دیے گئے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے علاوہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا اس وقت تمام تر انحصار بیوروکریسی پر تھا، ان لوگوں میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل غلام جیلانی خاص طور پر اہم ہیں جنھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو یقین دلا دیا کہ انتخابات کے لیے یہ وقت بہترین ہے اور وہ اس چال میں آ گئے۔‘
کیا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو واقعی کسی سازش کا شکار ہوئے تھے، ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے رکن اور 1977 کی انتخابی مہم کے سربراہ رفیع رضا نے اپنی کتاب ’ذوالفقار علی بھٹو اینڈ پاکستان‘ میں ایسی کسی سازش کی نشان دہی تو نہیں کی لیکن لکھا ہے کہ: ’ان کی انٹیلیجنس اور راؤ رشید وغیرہ انھیں حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنے میں ناکام ہو گئے تھے جب کہ حزب اختلاف نے متحد ہو کر سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے چیئرمین اور موتمر عالم اسلامی پاکستان شاخ کے سربراہ راجا ظفر الحق بھی اس معاملے کو کوئی سازش یا پھندا تو تسلیم نہیں کرتے، البتہ ان کا خیال ہے کہ حزب اختلاف کے نقطہ نظر سے انتخابات کے انعقاد کے لیے یہ بہترین وقت تھا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو سے اس سلسلے میں اندازے کی غلطی ہو گئی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’حزب اختلاف کی مقبولیت اس زمانے میں کتنی غیر معمولی تھی، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس زمانے میں وہ ایک انتخابی جلسے کے لیے اصغر خان کو راولپنڈی سے اپنے حلقے میں لے گئے، اس سفر کے دوران جگہ جگہ عوام کا جم غفیر اس قافلے کا راستہ روک لیتا جس کی وجہ سے یہ قائدین پروگرام سے کئی گھنٹے بعد اپنی منزل پر پہنچ سکے۔‘
راجا ظفر الحق بتاتے ہیں کہ ’اصغر خان کا یہی سفر تھا جس میں کوہالہ کے پل پہنچنے کے بعد عوام کے ایک بڑے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ذوالفقار علی بھٹو کو کوہالہ کے پل پر لٹکائیں گے۔‘
’روزنامہ پاکستان‘ کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ ’یہ کہنا تو مشکل ہے کہ حزب اختلاف نے سوچ سمجھ کر اپنے درمیان تفریق پیدا کر رکھی تھی لیکن اس قسم کا تاثر موجود تھا جسے حزب اختلاف کی مختلف جماعتوں کی سرگرمیوں سے تقویت مل رہی تھی جیسے تحریک استقلال نے آئندہ انتخابات میں ٹکٹ کے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرنے کے اخبارات میں اشتہار جاری کیے تھے، اس سے یہ عندیہ ملتا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں علیحدہ علیحدہ میدان میں اتریں گی۔‘
مشرقی پاکستان کی علیحدگی، پاکستان کے ان پہلے عام انتخابات کے بعد کیا واقعات رونما ہوئے اور تاریخ کے دھارے نے کیا رُخ اختیار کیا، وہ سب تاریخ کا حصہ ہے لیکن کم و بیش نصف صدی کے طویل سفر کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں تقریباً اسی قسم کے حالات ایک بار پھر پیدا ہو رہے ہیں، جن کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو کو کرنا پڑا تھا۔
ان دنوں یہ خیال عام ہے کہ موجودہ حکمران بھٹو حکومت کی طرح اپنی عوامی مقبولیت اور اس عہد کے ایک سیاسی تصور یعنی ایک صفحے سے ملنے والے اعتماد سے پے در پے غلطیاں کر رہے ہیں۔حال ہی میں تحریک انصاف حکومت کے سربراہ اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنی گفتگو میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن موجودہ حکومت کے تین وزرا شفقت محمود، فواد چوہدری اور شبلی فراز کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ملک کے اس آئینی ادارے پر سخت تنقید اور اسے مستعفی ہونے کے مشورے سے یہ احساس مزید قوی ہوا ہے۔
کیوںکہ حکومت کی طرف سے یہ مطالبہ اور حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں اختلاف کی خبریں ساتھ ساتھ آئی ہیں۔ عمومی خیال یہی ہے کہ حکومت نے اس مطالبے کے لیے وقت کا انتخاب حزب مخالف کے اتحاد میں امکانی ٹوٹ پھوٹ کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہو سکتا ہے، اس سلسلے میں کوئی پیشگوئی تو نہیں کی جا سکتی لیکن سینیئر سیاستدانوں کے تجزیوں کی مدد سے حالات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
غلام مصطفیٰ کھر موجودہ صورتحال کو بھٹو حکومت کے اسی زمانے کی کم و بیش مماثلت خیال کرتے ہیں جب ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہو چکی تھی اور انھوں نے انتخابات منعقد کرا دیے تھے۔
غلام مصطفیٰ کھر کہتے ہیں کہ ’موجود حکمرانوں کی مقبولیت کی لہر ختم ہو چکی ہے، غریب آدمی غربت کی چکی میں پس رہا ہے، وہ ناخوش ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔‘ ان کے مطابق ’یہ فوج نے اس حکومت کا مکمل ساتھ دیا ہے، ورنہ ان کا (بھٹو حکومت کا) زمانہ ہوتا تو یہ حکومت کب کی ختم ہو چکی ہوتی، اس لیے موجودہ حکومت اپنے راستے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتی۔‘
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، غلام مصطفیٰ کھر کی طرح 1977 اور موجودہ صورتحال میں کوئی مماثلت تو محسوس نہیں کرتے البتہ وہ یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے طاقت کے زعم میں آئین، قانون اور جمہوری روایات کی پروا کیے بغیر ایک ناپسندیدہ طرز عمل اختیار کر رکھا ہے جس کے نتائج ناخوش گوار ہو سکتے ہیں۔
مجیب الرحمٰن شامی کا تبصرہ اس سلسلے میں چونکا دینے والا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پی ڈی ایم، پی این اے کی طرح اگرچہ ایک انتخابی اتحاد نہیں اور اس نے ماضی کے اتحاد کی طرح اپنی اہمیت بھی ابھی ثابت نہیں کی لیکن اس کے حالیہ انتشار سے ہمت پکڑ کر حکومت بڑی غلطیاں شروع کردے۔ یہ قرین قیاس ہے۔‘
( بشکریہ : بی بی سی اردو )