شاکر بھائی مبارک ہو ۔۔ مبارک اس بات کی کہ تم نے مدینہ کی زیارت کی اور اس بات کی بھی کہ آج سے تم نے بھائی مظاہر کے ساتھ اپنا ذاتی کام بھی شروع کردیا ہے۔تمہارے خط سے ڈھارس بندھتی ہے،حوصلہ ملتا ہے۔ میں جو ریزہ ریزہ ہوچکا ہوں وقتی طورپر ہی صحیح چند لمحوں کے لیے مجمتع تو ہوجاتا ہوں۔
یہ خط جو تم نے 30اکتوبر کولکھاتھا مجھے آج ہی اس لیے مل گیا کہ میں آج کل ملتان میں ہوں۔ کل تمہارے انکل پاکستان آئے۔ان کے آنے کی اطلاع تمہارے ہاں اس وقت پہنچی جب میں سحر صاحب کے پاس بیٹھاتھا۔میں نے ذاکر سے کہا کہ میرے نام لفافہ ضرورآیا ہوگا۔ وہ پوسٹ نہ ہونے دینا۔ مجھے دستی لادیتا۔ آج وہ تمہارا خط مجھے دے گیا۔ اسلام اور سبطین کے نام تمہارے خط بھی میرے پاس ہیں۔ کل انہیں پہنچا دوں گا۔ میں بدھ کی رات ملتان آیاتھا جب تم مدینہ سے واپس آکر مجھے خط لکھ رہے تھے۔ میرا 3نومبر کوملتان آنے کاارادہ تھا مگر اخبار میں خبر چھپ گئی کہ ایف اے کا امتحان 7نومبر سے شروع ہورہاہے۔ میں نے سوچا کہ گھرچلتے ہیں تاکہ 7نومبر تک لاہور واپس جاسکوں۔
واضح ہو کہ 30اکتوبر کو صبح نوبجے تک میرا یہاں آنے کاارادہ نہیں تھا۔ لاہور بورڈ والوں نے اچانک مسئلہ کھڑا کردیا کہ ابھی چار تصویریں Attestکروا کر بھیجو ورنہ رول نمبرروک لیں گے۔ غالباً پہلے والی انہوں نے گم کردی ہیں۔ کل سحر صاحب سے تصویریں Attestکروا کے انہیں بھیج دیں۔ ایک خبر یہ ہے کہ اعزاز احمد آذر کا گوجرانوالا تبادلہ ہوگیا ہے۔وہ دوچارروز میں یہاں سے چلا جائے گا۔ آج صبح خواجہ کے بک سٹال پر نیشنل سنٹر کے ایک چپڑاسی نے یہ خبر دی اور کہا کہ جب وہ چلے جائیں گے تو پھر آپ نیشنل سنٹر آیا کرنا۔ پھر میں نے تصدیق کروائی اور سلیم جہانگیر سے ملا تو وہ بہت خوش تھے۔ کہہ رہے تھے کہ آرڈر 30اکتوبر سے آیاہوا ہے۔
بشری رحمان کارسالہ ”وطن دوست“ خدا معلوم جنوری میں بھی شروع ہوگا کہ نہیں لیکن مجھے تو تنخواہ مل رہی ہے اورہم کام بھی رسالے کاکررہے ہیں۔ بشری رحمان اپنے مطبوعہ انٹرویوز کی کتاب بھی چھپوانا چاہتی ہیں۔ یہ کام میرے ذمے ہے اور میں ان کے انٹرویوز کو ترتیب دے رہا ہوں۔ آرٹسٹ فداحسین کے انتقال کی خبر ملی لیکن میری ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ میرا خیال ہے کہ بروشر کے لیے بشری رحمان کا سکیچ انہوں نے ہی بنایاتھا۔ لاہور میں بورے والا سے غفارپاشا آیاتھاوہ ”عکسِ کہکشاں“ کے لیے میٹر جمع کررہا ہے۔ مقبول جہانگیر کے انتقال پر تمہارامضمون پسند آیا جو سعید بدر کوبھیج دیا ہے۔ جمعہ کو چھپ جائے گا۔ تم نے ان سے اپنی ملاقات کا سال 1980لکھاتھا جو دراصل 1983ہے۔
کل قمررضا شہزاد آیاتھا۔ اس سے خوب ملاقات رہی۔ آج بھی اس نے آناتھا لیکن ہم منتظر ہی رہے۔ اب رات کافی ہوچکی۔ڈیڑھ بج گیا ہے۔ گیارہ بجے رات واپس آیاتھا۔ سٹیشن پر بیٹھا رہا اطہر ناسک کے ساتھ۔اپنے شہر کایہی تو فائدہ ہے کہ دوستوں کے ساتھ وقت گزرنے کااحساس ہی نہیں ہوتا۔ پانچ نومبر کولاہور جاؤں گا۔میرے دادا جان کا کیا حال پوچھتے ہو ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔ احباب کو میری طرف سے سلام کہنا۔
تمہارا رضی
یکم نومبر 1985 ء
فیس بک کمینٹ