وہ آئندہ چند روزمیں شادی کرنے جارہے تھے۔اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ شادی کرنےاورباہم اکٹھے رہنے کی یہ خواہش ایک بھیانک خواب میں بدل جائے گی۔ وہ شادی کے بعداپنا ہنی مون پلان کررہے تھےانھیں کیاخبرتھی کہ ان کی ساری خواہشات اورخوشی وسرشاری کے تمام منصوبے کبھی پوری نہیں ہوں گے۔
ترکی کی شہری خدیجہ چنگیزاستنبول کےسعودی قونصلیٹ کے باہراپنےمنگیتر جمال خشوگی کاانتظارکررہی تھی جواپنی سابقہ بیوی سےطلاق کی دستاویزات کی تصدیق کے لئے گیا ہوا تھا۔قونصلیٹ کے باہرکھڑی خدیجہ کوکچھ خبرنہیں تھی کہ اس کے منگیتر کے ساتھ اندرکیا سلوک ہورہا ہے۔ وہ مطمئن تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں جمال باہرآئے گااوروہ اکٹھے فیملی ڈنر شریک ہوں گے۔ اس کوقطعا اندازہ نہیں تھا کہ اب وہ اپنے منگتیر سے کبھی نہیں مل سکے گی۔خدیجہ اور جمال کی ملاقات مارچ2018 میں استنبول میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ہوئی تھی۔پہلی ہی ملاقات میں وہ ایک دوسرے کے گرویدہ ہوگئےاورانھوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔جمال نےعملی زندگی کا آغازایک بک سٹورپرمعاون کی ملازمت سے کیا تھا۔ بعد ازاں اس نے صحافت کو بطور پیشہ اپنا لیا۔ اس شعبے میں کام کرتے ہوئےاس کی زندگی میں بہت سے نشیب و فرارآئےلیکن اس کاترقی کا سفرتمام تررکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود جاری رہا۔عرب دنیا میں اس کاشمارباخبراورصاحب بصیرت صحافیوں میں ہونے لگا تھا۔ مشرق وسطی کےامور پر ہونے والے ٹاک شوز میں وہ اکثر موجود ہوتا تھا۔ نہ صرف عرب ممالک بلکہ برطانیہ اورامریکہ کے ٹی وی چینلز بھی اس کے تجزیئےاوررائے کو اہمیت دیتے تھے۔ وہ عرب دنیا میں جمہوریت کے قیام اور استحکام کے لئے ایک گروپ تشکیل دینےکا پروگرام بنارہے تھے۔ جمہوری اقدارسےجمال کی وابستگی کوولی عہد شہزادہ سلمان سعودی عرب کے شاہی خاندان اوراس کے اقتدارکے لئے خطرہ خیال کرتے تھے۔
جمال قطرکے بائیکاٹ کی سعودی عرب کی پالیسی کی کھلےعام مخالفت کرتے تھے ۔۔ وہ لبنان سے سعودی عرب کے تنازعہ، کنیڈا سعودی -عرب کےمابین سفارتی تنازعہ کے خلاف بھی آواز اٹھاتے تھے۔ پرنس سلمان نےسعودی میڈیا پرجو کریک ڈاون کیا تھا جمال نے اس کو بھی ناپسند کیا تھا۔جمال نے سعودی عرب میں عورتوں کے سیاسی اورسماجی حقوق کے لئے آوازاٹھانے والی عورتوں کے حق میں بھی آواز اٹھائی تھی۔
2017میں جمال سعودی عرب سے امریکہ منتقل ہوگیا تھا۔امریکہ میں قیام کے دوران اس نے واشنگٹن پوسٹ کے لئے کالم لکھنا شروع کردیا تھا۔وہ خدیجہ چنگیز سے شادی کرکے ایک خوشگوارزندگی کاآغازکرنےجارہا تھا لیکن اس کا یہی خواب اسے موت کی وادی میں لے گیا۔ وہ طلاق کی دستاویزات کی تکمیل کی خاطر وہاں گیا تھا لیکن وہاں اسے موت کی وادی میں پہنچا دیا گیا۔ اخباری رپورٹس کی مطابق ابھی وہ زندہ تھا کہ اس کے جسم کوٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا اوربعدازاں ان ٹکڑوں کو تیزاب میں ڈال دیا گیا تھا تاکہ ان کا نشان مٹا یاجاسکے۔اسلام کےنام پر حکومت کرنے والے خادم حرمین شریفین کسی انسانی قدرپریقین نہیں رکھتے۔ اپنے مخالفین کو موت کی نیند سلانا ان کا محبوب ومرغوب مشغلہ ہے۔
فیس بک کمینٹ