اسلام آباد : سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاریوں اورراستوں کی بندش کی اسلام آباد بار کی درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا اور یہ 14 صفحات پر مشتمل ہے۔فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لانگ مارچ کی صورتحال ختم ہوگئی، سڑکیں کھل گئیں اور پٹیشن غیر مؤثرہوگئی لہٰذا اسلام آباد بار کی پٹیشن نمٹا دی ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق عدالت عظمیٰ کو مایوسی ہوئی کہ عدالتی کوشش کا احترام نہیں کیا گیا، عدالت کی کارروائی کا مقصد دونوں فریقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا، عدالتی حکم نامہ موجود فریقوں کی موجودگی میں جاری کیا گیا، اس کیس میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعلیٰ اخلاقی اقدار میں کمی واقع ہوئی، سیاسی جماعتوں کےاقدام سے عوامی حقوق اور املاک کو نقصان پہنچا۔
اکثریتی فیصلہ میں متعدد سوالات اٹھائے گئے ہیں اور ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، سیکرٹری داخلہ، آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد سے جواب طلب کیا گیا ہے۔
عدالت نے سوالات میں پوچھا کہ عمران خان نے کتنے بجے پارٹی ورکرز کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا؟ کب،کہاں اورکس طرح مظاہرین نے ممنوعہ جگہ پر داخلے کیلئے بیرئیرپارکیا؟ ریڈ زون میں گھسنے والامجمع منظم تھا؟ کسی کی نگرانی میں تھا یا اچانک داخل ہوا؟
عدالت نے پوچھا کہ کیا کوئی اشتعال انگیزی ہوئی یا حکومت کی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی؟ کیا پولیس نے مظاہرین کے خلاف غیرمتوازن کارروائی کی ؟ کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟ اگر ریڈزون کی سکیورٹی کے انتظامات تھے تو کیا حکام نے نرمی کی ؟ کیا مظاہرین نے سکیورٹی بیریئر کو توڑا یا خلاف ورزی کی؟
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا مظاہرین میں سے کوئی یا پارٹی ورکر جی نائن یا ایچ نائن گراؤنڈ پہنچا؟ کتنے سویلین زخمی یا ہلاک ہوئے، اسپتال پہنچے یا گرفتار کیے گئے؟
عدالت نے حکم دیا کہ سوالات کے جوابات پر مبنی رپورٹ ایک ہفتے میں جمع کرائی جائے اور ان تمام ثبوتوں کا جائزہ لےکر فیصلہ کیا جائےگا عدالتی حکم کی تعمیل ہوئی یا نہیں؟
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حقائق کی بنیادپر تصدیق کی ضرورت ہےکہ عدالت کی دی گئی یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی گئی، عدالت کو دیکھناہوگا کہ خلاف ورزیوں پرکس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو، پی ٹی آئی قیادت اوردیگرسیاسی جماعتیں پرامن سیاسی سرگرمیوں کاضابطہ اخلاق بنائیں گی۔اکثریتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ پرامن احتجاج آئینی حق ہے مگر یہ ریاست کی اجازت کے ساتھ ہوسکتا ہے، ایسے احتجاج کی اجازت ہونی چاہیے جب تک آرٹیکل 15 اور16 کے تحت پابندیاں لگانا ناگزیر ہوجائے، احتجاج کا حق قانونی، معقول بنیادوں کے بغیر نہیں روکا جاسکتا۔
اکثریتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی یقین دہانیوں پر 25 مئی کوحکم جاری کیا، حکم نے مظاہرین اور عوام کے حقوق اور ریاست کے فرائض میں توازن پیدا کیا، عدالت نے نیک نیتی سے توازن قائم کرنے کا حکم دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے مخالف فریقین کی یقین دہانیوں پراعتماد کرتے ہوئے حکم دیا، عدالت کی طرف سے نیک نیتی سے کی گئی کوششوں کی توہین کی گئی اور عدالت کو 25 مئی کے حکم کی خلاف ورزی پر رنج ہے۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ بھی لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ عمران خان نے اپنے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا اور 25 مئی کے عدالتی احکامات کو نہیں مانا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی لکھتے ہیں کہ میں اس بات سے آمادہ نہیں عمران خان کے خلاف کارروائی کیلئے عدالت کے پاس مواد موجود نہیں، میری رائے کے مطابق عمران خان نے عدالتی احکامات کی حکم عدولی کی۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے بیان کی ویڈیو سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چلائی گئی، عمران خان کے بیان میں کہاگیااسلام آباد اور راولپنڈی سے لوگ ڈی چوک پہنچنےکی کوشش کریں، عمران خان نے بیان میں کہاکہ ’میں انشااللہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں ڈی چوک پہنچ جاؤں گا‘۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ میرے خیال میں عمران خان کا یہ بیان اوربعد کاعمل 25 مئی کےعدالتی حکم سے ماورا تھا، بادی النظر میں یہ عمران خان نے عدالت کے 25 مئی کے احکامات کی حکم عدولی کی۔
انہوں نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ عدالت کے پاس عمران خان کیخلاف کارروائی کرنے کیلئے کافی مواد موجود ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نےعمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنےکی سفارش کی اور لکھاکہ عمران خان سے پوچھا جائے کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟
( بشکریہ : جیو نیوز )
فیس بک کمینٹ