ایک عالِم کی موت ایک عالَم کی موت ہوتی ہے ،موت سے کسی کو مفر نہیں مگر ناگہانی موت ایک قیامت برپا کر دینے والی ہوتی ہے ،وہ موت جس کے لئے نہ مرنے والا تیار ہوتا ہے نہ اس کے لواحقین ،پھر ایک عالمِ باعمل کی موت !گو وہ ہر لحظہ اپنے مالک سے ملنے کے لئے آمادہ وتیار ہوتا ہے ،عالِم تو موت کے لئے پابندیءاوقات کا قائل ہی نہیں ہوتا ،وہ اپنے رب کی امانت ہتھیلی پر سجائے پھرتا ہے اور جب آخرت کا سامانِ سفر بھی پاس ہوتو ڈریا خوف کس بات کا !
مولانا سمیع الحق ؒکی زندگی ایک صاف و شفاف اور مقطّرچشمے کی طرح تھی، جس سے سینکڑوں اور ہزاروں نہیں لاکھوں تشنگانِ علم نے جی بھر کر پیاس بجھائی ،مگریہ ریجھ ان کی درونِ ذات پھر بھی موجود رہی کہ انکی معیت ورفاقت کا رشتہ
ٹوٹنے نہ پائے ۔مولانا سمیع الحقؒ کے سیاسی نقطہءنظر سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے مگر ان کے دینی قد و قامت اور افکارو نظریات پردوآرا ءنہیں ہو سکتیں ،اپنے والد مولانا عبد الحق ؒحقانی کی طرف سے وراثت ملی ایک دینی درس گاہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ کی جس طور انہوں نے پاسداری کی یہ انہی کا وصفِ خاص تھا ،وگرنہ وارثِ جمیعت علمائے اسلام پاکستان کے حوالے سے اور اس سے بڑھ کر اکابر کی یادگار مدرسہ قاسم العلوم کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے کردار کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو موصوف نے ناصرف جمیعت کے شیرازے کو بکھیر کر رکھ دیا بلکہ علمی درسگاہ کے تشخص کو بھی بے دردی سے پامال کیا ،یہی وجہ ہے کہ آج مقامی انتظامیہ بے لگام ہاتھی کی طرح اس پر چڑھ دوڑی ہے مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ مولانا سمیع الحق ؒ نے اپنے والد گرامی کے چھوڑے ہوئے اثاثے کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ دارالعلوم حقانیہ کو ملک کی
ایک ایسی مثالی درس گاہ بنا دیا کہ جس میں روایتی دینی علوم پڑھانے کے ساتھ عصری علوم کی بھی تعلیم دی جاتی ہے فزکس، کیمسٹری،میتھ اور کمپیوٹرکے ساتھ ساتھ فلسفے اور نفسیات کے مضامیں پڑاھنے کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے ،اس سلسلے میں کے پی کے حکومت نے انتہائی اہم کردار ادا کیا سرِفہرست یہ کہ جامعہ کو خطیر فنڈز سے نوازا گیا،یہ مولانا ؒ کی جدید علوم فنون سے آگہی اور نئے علمی افق سے ہم آنگی اور محبت تھی۔
مولاناؒ کے اندھے قتل کے پیچھے جو بھی ہاتھ ہے وہ ایک نہ ایک روز عیاں ہوکر رہے گا،یہ قتل ایک قومی نوعیت کا سانحہ ہے، جس نے دینی حلقوں ہی میں نہیں سیاسی حلقوں میں بھی اضطراب کی لہر دوڑادی ہے ،حالات کیا صورت اختیار کرتے ہیں ملزمان تک پہنچنے کے کونسے اسباب کام آتے ہیں ،اس جانکاہ حادثے کا مثبت پہلویہ ہے جامعہ حقانیہ کی انتظامیہ اورطلبانے کسی قسم کی ہنگامہ آرائی کی ڈگر نہیں اپنائی،اور خاموش احتجاج کے ذریعے حکومت کو ملزموں تک پہنچنے کی مہلت دی ہے،اب حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ معاملے کی حسساسیت کا بھر پور ادراک کرتے ہوئے انویسٹیگیشن کے جدید ترین ذرائع استعمال کرتے ہوئے متاثرینِ سانحہ کے زخموں پر مرہم کا اہتمام و انصرام کریں ۔
مولانا سمیع الحق ؒکے فرزند مولانا حمادالحق سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے آبا کی قیمتی وراثت کو انہی کی طرح امن وآشتی اور علم و عمل کا گہوارہ بنائے رکھیں گے،اپنی درسگاہ کی روایتی حیثیت کو زندہ و تابندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ مولاناؒ کے اس خواب کو بھی شرمندہ تعبیر کریں گے کہ دینی مدارس کے طلبا بھی زندگی کی دوڑ میں دیگر سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبا کے شانہ بشانہ سفر طے کریں ،اس کے ساتھ دینی اقدارو روایات کی پاسداری کی ذمہ داری بھی اسی تن دہی سے انجام دیتے رہیں جومولانا سمیع الحق شہیدؒ کا شیوہءخاص،ان کا مقصدِ حیات اور سرمایہءزیست تھا،مولانا سمیع ٓالحقؒ کی شہادت سے دینی حلقوں ہی میں نہیں پاکستان کی سیاسی زندگی میں بھی بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کے پُر ہونے میں نہ جانے کتنا عرصہ لگے گا۔
فیس بک کمینٹ