آج ٹھیک چھ ماہ اپنے اخبار سے غیر حاضر رہنے کے بعدایک بار پھر اللہ نے حاضری کی توفیق عطا کی ہے،غیر حاضری کی وجوہات کی طوالت کو چھیڑنے کی بجائے پھر ایک بار اوصاف کے صفحات کی محفل کی رونق کا حصہ بننے کی چاہ ہے ۔
بہت سارے احباب نے کہا ایک در بند ہوا ہے تو کیا ہواسو در اور ہیں ،مگر میں سچ کے اس آستانے کا اسیر ہوں اور اس کے در میرے لئے ہمیشہ وا رہے ہیں ،ہاں ایک بات کا افسوس بلکہ قلق ہے کہ کچھ لوگوں نے بے پر کی اڑائی کہ سرکار کے لفافوں نے منہ پر مہر اور قلم پر قدغن لگا دی۔
ہم نے تو قسم کھائی ہے کہ
” سچ جہاں دیکھ لیا چوم لیا“
اور اس رسم کو اگست1998 ءسے نبھا رہا ہوں اور تا زیست ان شاءاللہ یہ رشتہ ٹوٹنے نہیں پائے گا کہ یہ کاغذ کی ناﺅ نہیں جسے حالات کا طوفان بہا لے جائے گا،ناں ہی کوئی ہوا اسے اپنے رُخ اڑا لے جانے کی سکت رکھتی ہے۔ جب تحریکِ انصاف تبدیلی کی سیاست کے نعرے لگا رہی تھی اور وطنِ عزیز اس امر کی ضرورت محسوس کر رہا تھا کہ کوئی نئی قیادت بے رُخی سیاست کامکھ موڑ دے ، کوئی ” سال ہا سال سے نہ بدلنے والے سائے کا مقام تبدیل کردے“ تو امید کا دامن عمران خان سے وابستہ کرلیا، ایک دو نہیں لاکھوں عوام کی آرزو تھی کہ فقط نظام ہی نہیں چہرے بھی بدلیں۔
عمران خان نے پہلے پہل نئی نسل کی ہتھیلیوں پر امید کے دیئے رکھ کر موروثی سیاست کے بُت توڑنے کی کوشش کی ،کچھ بن نہ پڑا تو اس نے نوجوانوں کے ہاتھ میں بلا پکڑا دیا،اس عزم کے ساتھ کہ جو ”نقشِ کہن تم کو نظر آئے مِٹادو“
حسنِ ظن کی ایک شاخ دلوں میں سر سبز و شاداب ہوئی،کس دھج سے نسلِ نو نے پیش پا افتادہ سیاست ہی کو نہیں ملک کے
معرض وجود سے اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کا ملیا لیٹ کیا۔ اُنہیں کیا خبر تھی کہ ایک نئی زنجیر پاﺅں میں ڈال دی جائے گی ،ایک نیا طوق گردنوں میں سجا دیا جائے گا، لمبی ،لمبی امیدیں باندھنے والے نوجوان منزل پر پہنچنے سے پہلے ہانپ گئے اور ہم جونئے خواب کی تعبیر کے پیچھے بگٹٹ بھاگے تھے ،جلد ہماری سانسیں بھی اُکھڑ گئیں۔ سوال بہت تھے ،جواب ایک بھی نہیں تھا ،دائیں بائیں ،آگے پیچھے اندھیرا ہی اندھیرا،نظام تو کیا چہرے بدلنے کا سپنا بھی بکھر گیا،یہاں تک کہ برتن تو کیا شراب بدلنے کے محاورے سے بھی محروم ٹھہرے۔ دِساور کا پڑھا عمران خان جو ایک یورپین یونیورسٹی کی چانسلر شپ کا اعزاز بھی رکھتا ہے اور اکنامکس میں گریجویٹ بھی ہے (واللہ اعلم )ملکی عوام کا انتخاب بن کر وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر براجمان ہوا،عوام تو کیا وہ خود بھی بہت پُر اعتماد تھا ،مگر جلد ہی اس کی خود اعتمادی کو نظر لگ گئی اور وہ ان کا منظور نظر بن کر رہ گیا جو اس ملک کی تقدیر کے مالک رہے ہیں اور کسی صورت یہ طرہ ءامتیاز اپنے کندھوں پر سجائے رکھنے سے دستبردار ہونے کے نہیں ۔
ریاستی امور وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتے چلے گئے اور معاشی امور جنہیں درست کرنے کے دعویٰ کے ساتھ وہ فروکش ہوئے تھے ان سے تو جیسے دست کش ہی ہو کر رہ گئے اور تو اور ،ان سے اپنے وزیر ،مشیر تک سنبھالے نہیں جا رہے،جن کی کارکردگی لمحہ بہ لمحہ مایوس کن ہوتی جا رہی ہے،جگ ہنسائی کی روش جو اقتدار کے ایوانوں سے چلی تھی ،اسمبلیوں کے ایوانوں سے ہوتی ہوئی ،عدالتی ستونوں کو کمزورو نا تواں کرتی ہوئی گلی محلوں میں غربت و افلاس کی صورت شوکتی پھرتی ہے اور حکومت جیسے گہری نیند کے نشے میں سرمست۔
آٹا چینی دال کے بھاﺅ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں تو بے روزگاری چہار سو سر اٹھائے کھڑی ہے ،کس کس بات کا رونا روئیں ،کوئی سا اونٹ بھی تو کسی کَل بیٹھنے نہیں پا رہا،جس کسی سے استفسار کریں کہتا ہے
”ریزہ ریزہ ہے بدن،انگلیاں زخمی زخمی“
تاہم بہت سارے لوگ (مجھ سمیت) ابھی بھی تحریک انصاف کی حکومت سے کچھ کر دکھانے کی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں،گو یہ دوسروں کی عیب کشائی کرتی کرتی خود بھی برہنہ جسم ہوتی جا رہی ہے ،شاید اس برہنگی سے کوئی ندامت کا پہلو رونما ہو ،جو کسی معجزے سے کم نہ ہوگااور انتقامی سیاست کی کوکھ سے انتظامی سیاست کی کوئی صورت بھی نکل آئے اور پیوندِ خاک ہوتی لاج بچ جائے۔
بڑے صوبے کا حاکم بات کرنے کی حد تک کچھ پیش رفت کر پایا ہے ،مگر صوبائی امور خصوصاََ سرائیکی صوبے کا معاملہ تاحال معلق ہے ،جھوٹے وعدوں کے جو پہاڑ کھڑے کئے گئے ہیں ان میں لاوہ بہت ابال پکڑ چکا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ اوصاف)