جنگ کا بازار گرم ہو دشمن کی افواج سامانِ حرب کے ساتھ نبرد آزئی کے لئے تیار کھڑی ہوں ، سرحدوں پر کشیدگی کا سماں ہو ،رات دن شہادتوں کا سلسلہ جاری ہو ،ایسے میں سالار کی مدت ملازمت ختم ہو جائے تو لشکر کو نئے سالار نوید دے دی جائے ، ایکٹنگ سالار کی حکمتِ عملی کا بوجھ نئے سالار کے کندھوں پر ڈال دیا جائے تو اسے سنبھلنے اور معاملات کو سنبھالنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،افواج کے بیچ نئے سرے سے انڈر سٹینڈنگ پیدا کرنے میں کچھ وقت لگ ہی جا تا ہے، اس لئے دانش کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ایسے کسی فیصلے کو مئوخر کردیا جائے،پھر یہ پہلی بار بھی تو نہیں ہورہا اس سے پہلے جنرل اشفاق کیا نی کو اتنی ہی توسیع پی پی پی کے دور میں ملی ،تب سرحدوں پر ایسی کشیدگی نہیں تھی نہ ہی سیاستدان لنگوٹ کسے حکومتِ وقت کے سامنے رن سجائے ڈنڈ پیل رہے تھے ۔میاں نواز شریف اپنے دور اقتدار میں جنرل کاکڑ جیسے اصول پرست سالار کو مدت ملازمت میں توسیع کی پیش کش کی جو انہوں نے ٹھکرا دی جس کی بعد ازاں سزا بھی پائی۔
عمران حکومت نے بھی حالات کی تیور کا اندازہ کر تے ہوئے معمول کا ایک فیصلہ کیا ہے ،جس پر سوشل میڈیا میں طوفان کھڑا کر دیا گیا ہے۔معاملے کی نزاکت پر غور کرنے کی بجائے فوج کو سب و شتم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ وہ لوگ جو جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے موقع پر تالیا ں بجاتے نہیں تھکتے تھے آج جنرل قمرجاوید باجوہ کی توسیع پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔
حکومت وقت سے کسی پارٹی یا گروہ کا اختلاف کرنا بری بات ہر گز نہیں ،مگر اختلاف کے پیچھے بغض کا ہونا انتہائی ناروا رویہ ہے جس سے کسی طور اتفاق نہیں کیا جا سکتا،جنرل جن جن محاذوں پر اس وقت لڑرہے ہیں وہ پوری قوم کے سامنے ہیں اور بیش تر طبقات حکومت کے اس فیصلے پر خوش ہیں اور ایک بڑا طبقہ اگر خوش نہیں بھی ہے تو فیصلے کے صائب ہونے پر معترض نہیں ہے۔
حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہی فیصلہ ہی معتبر و مناست لگتا ہے۔جنوبی ایشیاء ہی نہیں پوری دنیا جنگ کے بادلوں سے گھبرائی ہوئی ہے،یہاں تک کہ خود انڈیا کا پڑھا لکھا بڑا طبقہ مودی کی پیدا کی ہوئی صورتِ حال پر تشویش رکھتاہے اور دھیما دھیما احتجاج کرتا ہوا نظر آتا ہے جبکہ میڈیا کے لوگ مقبوضہ کشمیر میں پیدا کی جانے والی دہشت گردی کی لہر کی مذمت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔اِدھر جنگ کے سب نشیب وفراز سمجھنے والے سپہ سالار کو ملازمت میں توسیع دینے پر اتنی چیخ و پکار الامان الحفیظ…..!
موجودہ حکومت اور فوج کے درمیان آج جو ہم آہنگی اور اشتراک ِ عمل نظر آتا ایسااس سے قبل کبھی دکھائی نہیں دیا۔یہ نئی بات نہیں ہے ہمارے یہاں کے لبرل دانشور اور انتخابی سیاست میں شکست کی ہزیمت اٹھانے والوں کی یہ روش رہی ہے۔ حکمت کے صحیح فیصلوں کی ہمیشہ سے تردید کرتے رہے ہیں ۔جہاں تک جنرل قمر جاوید باجوہ کا تعلق ہے وہ نواز دور سے سرکار کے ساتھ بہتر ریلیشن شپ قائم رکھے رہے ہیں مگر اصولوں پر سودے بازی کبھی نہیں کی۔وہ ہر دور میں سیکیورٹی حالات پر کڑی نگاہ رکھے رہے ہیں ان کی سپہ سالاری کو بہت سارے مسائل کا سامنا رہا ہے اور شدید تنقید کا بھی ،مگر انہوں نے اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کہ کون تحسین کر رہا ہے اور کون تنقید کے پتھرسا رہا ہے۔جنرل باجوہ کے دور میں وردی پر سب سے زیادہ کیچڑ اچھالا گیا ،مگر یہ ان کی قائدانہ صلاحیت اور اپنے کام سے غرض رکھنے کا ثبوت ہے کہ کبھی ایسی باتوں کی پروا نہیں کی ۔
وزیر عمران خان نے اپنی سرحدی حکمت عملی کی مضبوطی کے لئے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کرکے کوئی گناہ نہیں کیا ،نواز شریف سے جب واپڈا نہیں سنبھل رہا تھا اس نے فوج کو اندرونی مسئلہ پر قابو پانے کے لئے بلا لیا تھا ۔عمران حکومت نے لہو میں نہائے کشمیری عوام کی پکار پر ایک قابل جنرل کو ملازمت میں توسیع دے دی ہے تو کیا ہوا،ایسے بُرے حالات میں تو فوج سرحدوں کے ساتھ ساتھ پورے ملک کو سنبھالتی رہی ہے جو صریحاََ ایک قبیح اور قابل نفرت و مذمت فعل تھا ۔آج ملک کو ایسے ہی بہادر اور اصول پسند جنرل کی ضرورت ہے جو بھارت سرکار اور دہشت گرد بھارتی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرت سے لیس ہو ،جو بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔وہ بلا شبہ جنرل قمر جاوید باجوہ ہے ،جو دہشت گردی کے پیچھے وردی کا نعرہ لگانے والوں کے ناپاک عزائم کے خلاف بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتا ہے اور مودی سرکار کو بھی خاک چٹوا سکتا ہے۔