کیا خوبصورت ،سجیلا ،نشیلا اور جذباتی نوجوان تھا،طلبا سیاست میں اس کا نام ایسے چلا جیسے ٹیکسال سے ڈھلا نیا سکہ چلتا ہے،چٹا گورا ،سرخ و سپید ،زبان و بیان پر کامل دسترس،آخر نسیم بہار (جماعت اسلامی )کا پالا ہوا تھا،غریب گھرانے سے تھا ،سرکنڈے کی چھتوں کے مکان میں رہائش مگر ٹور واہ واہ ، اپنے گاؤ ں مخدوم رشید میں ہوتا تو زیادہ تر اپنے ماموں گامن شاہ کے ڈیرے پر پایا جاتا ،کسی وسیلے سے پیلے رنگ کی پرانی ایف ایکس کار پائی جس کو دھکا لگانے کیلئے اسے دو نوجوان ساتھ رکھنے پڑتے،انتہائی معمولی زرعی اراضی تھی ،جس پر خاندان کی روزی روٹی کا انحصار تھا۔ بہر حال جماعت کی پشتی بانی نے اسے خوشحال و خوش رنگ رکھا ہوا تھا،ان دنوں جماعت کی ذیلی طلباتنظیم کے عروج کے دن تھے ،اسی سے اس کی آسودگی وابستہ تھی ،تنظیم کی ڈنڈا بردار فورس کا بھی خاصا خوف تھا ،دیہی نوجوان ہونے کی وجہ سے دو ہاتھ لڑ بھی لیتا تھا ،یہاں تک کہ کڑی سے کڑی چوٹ بھی آسانی سے سہ لیتا تھا،یہی وجہ تھی کہ پنجاب پر کھر راج کے دنوں میں جب اسے پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل سے نیچے زمین پر پٹخا گیا تو سخت جانی کی وجہ سے جانبر ہوا،اس کے ساتھ ہی اس کی سیاست کو چار چاند لگ گئے۔ پی پی پی کے 1977ء کے الیکشن کے بعد پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے قومی سطح پر متعارف ہوا ،بھٹو کے ساتھ ایک باقاعدہ معاہدے کے باوجود آمر ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ،تحریک آمر کے قدموں میں ڈھیر ہوئی توسب سے زیادہ وزارتیں جماعت اسلامی کے حصے میں آئیں،یہ وزیر بنا تو مزے ہی اور ہوگئے ،ایک خاص انرجی ٹیبلٹس کے حوالے سے شہرت اور پیسہ دونوں کمائے ،دن پھر گئے ،انہی دنوں کے کمائے ہوئے سے بہت کچھ بنایا ،زرعی اراضی بھی اور شہری جائیداد بھی۔ آمر ضیاء اپنی زندگی کے ساتھ اسے بھی نواز شریف کو دے گیا ،مسلم لیگ ن کی حمایت کا ہار گلے میں ڈالا تو زندگی گلزار ہوگئی،اسی دو ران اپنی ایک دختر نیک اختر کو قومی اسمبلی کی ممبر بنانے میں سرخرو ہوا ،دیگر عزیزو اقارب کو نوازنے کی داستان الگ ہے،جب تک میاں نواز شریف کا ہم رقاب رہا کئی کئی حلقوں سے قومی اسمبلی کا ممبر بنا،بنی ہوئی تھی تو دو دو وزارتوں کے قلمدان سنبھالے رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں پھر کچھ وقت ابتلا میں گزرا،میا ں نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آئے تو نوازشات اور مراعات کے درپھر وا ہوئے میاں اپنے اقدار کی مدت پوری نہ کر سکے،آمر پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو شریف خاندان سو صندوقوں میں اپنی دولت بھرے مشرف کے ساتھ دس سالہ معاہدے کے تحت عازم حجاز ہوئے اور جاتے ہوئے مسلم لیگ ن کی صدارت کی ذ مہ داری اس کے کندھوں پر ڈال گئے ۔ پھر سنا ہے ایک ٹکٹ کی بات پر مسلم لیگ ن سے راہیں جدا کرلیں ،تحریک انصاف کے چیئرمین نے اس کے مقام و مرتبے کا دھیان رکھتے ہوئے اس ٹوٹے ہوئے ستارے کو اپنی پارٹی کا صدر بنا دیا ،بہت عزت بہت احترام کیا گیا مگر ایک نیام میں دو تلواریں کب تک رہ سکتی تھیں ،حلقہ بھی ایک ،وسیب بھی مشترکہ ،نتیجہ یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کو خیر آباد کہہ دیا ،شاہ محمود نے تو سکھ کا سانس لیا اور یہ کٹی ہوئی پتنگ بن کر رہ گیا۔ پی ٹی آئی کی نشست چھوڑی مگر چین نہ آیا ،ملتان کے ایک حلقے سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پی ٹی آئی کے ایک ناتجربہ کارچھوکرے سے دس ہزار ووٹوں سے شکست کی ہزیمت اٹھائی۔مسلم لیگ ن کے عرش سے فرش پر گرا تو دریوزہ گر کا روپ دھارلیا ،ن لیگ کے ہر جلسے میں جاتا ،نواز شریف یا شہباز شریف کبھی ملتان کے دورے پر آتے تو ان کے گرد طواف کرتا ،کبھی دور بیٹھا اکھ مٹکا کرنے کے اشارے دیکر لوگوں پر ظاہر کرتا ،ان کا منظور نظر ہے ،مگر بغض و عناد کے زہر سے بھرے میاں نواز شریف نے اس کے ان اشاروں کناروں کو کوئی اہمیت نہ دی ،حالانکہ پی ٹی آئی میں ہوتے ہوئے بھی یہ برملا کہتا ”میاں نواز شریف میرے لیڈر ہیں ”اس دو رخی سیاست سے ملتان کے حلقوں میں پذ یرائی سے محروم ہوا۔ 2018ء کے الیکشن کے لئے اس کے ترلے کسی کام نہیں آئے ،اس کی صحت برباد ہو چکی ہے ،ٹھیک سے بول نہیں سکتا،بغیر سہارے کے چل نہیں سکتا ،مگر اقتدار کا بھوت ہے کہ اس کے سر سے اترنے کو نہیں آرہا،مسلم لیگ ن اس کی طرف مڑکر نہیں دیکھتی مگر وہ ابھی بھی آس کے دیئے جلائے پھرتا ہے ۔ جاوید ہاشمی کی سیاسی تپسیہ سے کسی کو انکار نہیں مگر اس کی سیاسی قلابازیوں نے اس کی زندگی بھر کی جدوجہد پر پانی پھیر دیا ہے ،اسے یقین کر لینا چاہیئے ،اپنی ایک اور شکست کی طرف وہ پیش قدمی نہ ہی کرے تو اچھا ہو ،بھلے مسلم لیگ ن اس کے کشکول میں کسی حلقہ کا ٹکٹ ڈال ہی کیوں نہ دے کہ عزت سے رخصتی کا یہی ایک بہانہ ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ اوصاف )
فیس بک کمینٹ