دل کا شاید یہی ٹِھکانہ تھا : ماہ طلعت زاہدی کی تازہ غزل
میں نے ماضی کو مُڑ کے دیکھا تھا
مشغلہ ایک ہاتھ آیا تھا
سارے بچھڑے ہوئے ِملے آ کر
سب کو ہی انتظار میرا تھا
کیا بتاؤں کہ اِس خرابے میں
رستہ اِک گُلستاں کو جاتا تھا
میں اِک ایلس تھی اور ونڈر لینڈ
جِس طَرف دیکھئے تماشہ تھا
رنجِ حالات سے جو مُنہ موڑا
دل بہلنے کو فن بہانہ تھا
میرے جیسے وگرنہ کیوں جیتے
شعر تھا، نغمہ تھا، فسانہ تھا
ہم نَوا ہمسفر بنا تو لگا
دل کا شاید یہی ٹِھکانہ تھا
یہ رِفاقت ،نہ دِیں نہ دُنیا تھی
رِشتہ یہ ماورا سا لگتا تھا
فیس بک کمینٹ