1987 جُون .. ملتان کی جُھلساتی دوپہر، پاپا ( سید مقصود زاہدی )کا بی پی 220 اُن کی پیشانی کے دائیں طرف کی رگ پُھول کر پھڑکتی نظر آ رہی تھی، میں اور امّی گھر میں تھیں ، وہ بولیں ماما کو فون کرو، ماما(زاہد علی واسطی) ڈاکٹر تھے،مگر اُن کے اے۔ سی کمرے سے نِکلتے نِکلتے اور کار بیٹھ کر گھر سے آتے آتے آدھ گھنٹے سے زیادہ ہی لگتا، میں نہ ڈاکٹر نہ نرس، میں تو سائنس کی طالبہ بھی نہیں رہی تھی۔ لیکن بھائی جان (ڈاکٹر انور زاہدی) کی گھر سے دُوری نے بہت کُچھ سِکھا دیا تھا ۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں ، میں نے فیصلہ کیا، دواؤں کے ڈبے سے ویلیم 10ایم جی کا ایمپیول توڑا اور پاپا کے ٹیکا لگا دیا۔ شُکر کہ وہ بچ گئے اور پھر نو سال زندہ بھی رہے ۔ شام کو محلے کے ایک ہمدرد ڈاکٹرظفر نے جب سُنا تو مجھے ڈانٹا کہ اگر کُچھ ہو جاتا تو؟ ۔۔۔میں نے کہا کُچھ تو ویسے بھی ہو سکتا تھا۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ