میرا بائی کا عہد جہاں سے شروع ہوتا ہے وہاں سے کبیر داس کا عہدتقریباً خاتمے کو پہنچتا ہے۔ یعنی 1498ءسے 1565ءتک۔
میرا بائی کو سمجھنا ، ان کی شاعری کو جاننا ، ان کی واردات کو پہچاننا ، نسبتاً مشکل ہے۔ ایک وجہ میرا بائی کی زبان ہے۔ اس لیے کہ وہ میٹرتا کے راج ہنس میں پیدا ہوئیں۔ بیاہ کر میواڑ کے راج محل گئیں۔ میکے میں ان کی تربیت اور تعلیم ان کے دادا دودامل کے زیرنگرانی ہوئی اور رائج الوقت علوم ، فنون لطیفہ ، فنون جنگ سبھی کی تعلیم دی گئی لیکن بعد میں چونکہ میرا نے تقریباً نصف ہندوستان کا سفر سادھوﺅں کے سنگ اور عوام کے قریب رہ کر کیا اس لیے ان کی شعری زبان میں راجستھانی سنسکرت سے لے کر ، برج بھاشا ، اودھی ، گجراتی ، حتیٰ کہ فارسی اور عربی الفاظ تک آملے۔ جیسا کہ تاریخ سے ظاہر ہے کہ وہ اکبر کے عہد میں شمالی ہند میں بھی آئیں جہاں اکبر اُن سے احترام کے ساتھ ملا اور ملکہ مریم زمانی میرا سے انتہائی متاثر ہوئیں اور ان کی چیلی بن گئیں۔ تان سین ، راجہ مان سنگھ ، بیربل اور نوجوان شاعر تلسی داس نے بھی میرا کی صحبتوں سے فیض پایا….
زبان کی یہ اجنبیت اچھے مترجم کی بدولت اور پھر میرا کے دل کی بولی بولنے سے دور ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد ان کی پریم بھگتی اور واردات قلبی کو جاننے کا مرحلہ آن کھڑا ہوتا ہے۔ جہاں تک پریم بھگتی کا تعلق ہے۔ تو مختصراً یہ ہندو مذہب میں وشنو کا بار بار اوتار لینا موجود رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سماج سدھار کی خاطر وشنو نے نو مرتبہ اوتار لیا جن میں سے دو بے حد معروف رام اور کرشن کے روپ ہیں۔ میرا بائی کو سمجھنے کے لیے یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ ”بھگتی تحریک“ کا مطلب صرف وشنو مذہب ہے اور رام اور کرشن کے اوتاری وجود سے ، والہانہ عشق اس کا اصل مقصد ہے۔ اس کے پانچ بھاﺅ ہیں۔
-1شانت بھاﺅ: جس میں صحرا نشین بھگت رام اور کرشن کو ذرے ذرے میں پا کر بھگتی کرتے ہیں۔ (بھاﺅ سے یہاں مراد بھگتی کا قرینہ ہے)
-2 داس بھاﺅ: اس میں غلام کی طرح رام اور کرشن کو پوجا جاتا ہے۔
-3 سکھا بھاﺅ: اس میں بھگت ایک دوست کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔
-4واتسلیہ بھاﺅ: رام یا کرشن کے بالک شریر (وجود) کو ممتا بھری چاہت سے قبول کرلیا جاتا ہے۔
-5پریم بھاﺅ: بڑا اہم بھاﺅہے اس میں گزشتہ چاروں بھاﺅ مل جاتے ہیں۔ ساتھ ہی پریمی بھگت کی آتما پرماتما سے عشق کے کارن واصل ہوجاتی ہے۔
خیال رہے کہ میرا بائی اپنے عہد کی زبردست بھگت بن کر ظاہر ہوئیں۔ بلکہ ان کے عشق نے چونکہ شاعری سے مدد پائی ، اس لیے میرا بائی کرشن کی چیلی بن کر امر ہوگئیں۔ انہوں نے ناصرف اپنے دور کو بلکہ اپنے بعد کے تمام ادوار کو فکر ، جذبے ، عشق اور اپنی بھگتی سے متاثر کیا بلکہ ہندوستان میں ایک عورت کو شاعرہ کا خود مختار ، ذہانت سے پر اور اعتماد سے مالا مال وجود عطا کیا۔ میرا بائی کا یہ ہندوستان کی عورت پر ایک ایسا بالواسطہ احسان ہے جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے بعد ہم میرا بائی کی قلبی واردات کے مقابل حیران و پریشان ، خود کو کھڑا پاتے ہیں۔ یہ ایسا پیچیدہ موڑ ہے کہ یہاں عقل و فہم دم بخود اور آگہی ، ادراک انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
جہاں تک عبادت کا تعلق ، اس کی ظاہری رسوم کو اپنانے اور ادا کرنے کی بات ہے۔ وہ تو ہر بھگت ظاہر میں اور (کبھی کبھی صدق دل سے) باطن میں کرلیتا ہے لیکن میرا کی شاعری جس عشق کا بیان کررہی ہے یہ کوئی سوچا سمجھا ، جان بوجھ کر اپنایا گیا معاملہ نہیں۔ یہ تو دنیا ہی کوئی اور ہے۔ یہاں تک کون قاری پہنچ سکتا ہے؟ بلکہ خود عاشق صادق بھی کیونکر پہنچا ہوگا ، کچھ سمجھ میں نہیں آتا
بقول میر
چپکے ہیں ہم تو حیرت و حالات عشق سے
کریئے بیاں جو واقف اسرار ہو کوئی
کہا جاتا ہے کہ میرا بے پناہ حسن اور پُرمحنت دل لے کر اس دنیا میں آئی تھیں اور ابھی وہ فقط پانچ سال کی تھیں کہ انہیں ایک گرو نے (غالباً ریداس ، جو کبیرداس کے چیلے بھی رہے ہیں) شری کرشن کی مورتی دی تھی۔ یہ عشق بلا خیز وہیں سے شروع ہوا اور اس پریم رس نے میرا کی آنے والی تمام زندگی کو یکسر موڑ دیا۔ وہ آہنسا کی پرستار بن گئیں اور انہوں نے اپنے خاندان کی کالی دیوی کی خونریز قربانیوں میں خود کو کبھی ملوث نہیں کیا۔
لیکن میرا کے جوگ لینے سے پہلے کا اہم ترین واقعہ میرا بائی کی شادی کا ہے۔ 1516ءمیں وہ چتوڑ کے طاقت ور راجپوت راجہ ، رانا سانگا کے راج کنور بھوج سے بیاہی گئیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ میرا نے پہلے لمحے سے ہی اپنے شوہر کو ماننے سے انکار کردیا۔ وہ خدمت پر تیار تھیں ، محبت پر نہیں۔ یہ خبر رانا سانگا تک پہنچی تو ان کی برہمی کا ٹھکانا نہیں تھا لیکن ان کی ماں رانی جھالی نے ، جو خود ریداس کی چیلی تھیں میرا کو بچالیا۔میرا کے شوہر رانا بھوج راج نے دوسری شادی کرلی….میرا کو کوئی افسوس اور دکھ نہ ہوا وہ پہلے دن سے یہ کہتی رہیں کہ ان کا بیاہ کرشن کے ساتھ ہوچکا ہے۔ سسرال سے ان کی کشمکش کی کوئی حد نہ رہی۔ شوہر نے انہیں زہر سے پھر سانپ کے ذریعے مروانے کی کوشش کی ، لیکن میرا کسی غیر مرئی طاقت کے زیراثر ہر مرتبہ بچ بھی نکلیں اور اپنے راستے پر ڈٹی بھی رہیں۔ کہتی ہیں: رانا (شوہر) کے زہر کو امرت اور سانپ کو وشنو جانا۔
رانا بھیجا جَہر پیالہ امرت کر پی جانا
ڈبیا میں بھیجا بھونگم ، سالگ رام کر جانا
(سانپ) (وشنو)
مہاسوں ہری بن رہیو نہ جائے
(کرشن)
ساس لڑے ، مری نند کھجاوے ، رانا رہیا رسائے
(تنگ کرے) (غصے میں)
پہرو بھی راکھیو ، چوکی بٹھاریو ، تالا دیوجڑائے
آخر کار ایک لڑائی میں میرا کا شوہر بھوج راج مر گیا اور میرا کے سوتیلے دیور رتن سنگھ نے بھی انہیں قید کردیا۔ لیکن پہرے پر مامور عورتیں چمپا اور چمبیلی بھی میرا کی شخصیت کے سحر میں آکر ان کی چیلی بن گئیں۔…. یہاں تک کہ 1532ءمیں میرا کے چچا انہیں اپنے پاس لے گئے…. لیکن اب میرا بلا تکلف ہر طبقے کے لوگوں سے ملنے لگی تھیں۔ یہ باتیں اور روش ایک راج گھرانے کی بیوہ کے لیے نامناسب سمجھی گئیں۔ آخر کار میرا میٹرتا سے یاترا پر روانہ ہوگئیں۔ ان کی زندگی کے بقیہ تیس سال اس کٹھن تپسیا ، ریاضت ، جوگ ، تیاگ میں گزرے۔ لیکن کہا جاسکتا ہے کہ شاید یہی ، میرا کے بہترین ایام رہے ہوں گے کیونکہ اپنی شادی کے بعد والی زندگی کے لیے ایک جگہ انہوں نے کہا ”اے رانا!تیرے دیس کے رنگ ڈھنگ اچھے نہیں لگتے ، تیرے دیس میں سادھو (پاک) نہیں سب ناکارہ لوگ بستے ہیں۔ ہم نے گہنا پاتی سب چھوڑ دیا۔ دل پر کراری چوٹ کھائی ہے۔“
نہیں بھاوے تھارو دیسڑ و رنگ رُوڑو
(دیس)
تھاراں ویساں میں رانا سادھ نہیں چھے
لوگ بسو سب کُوڑو
گہنا گانٹھی رانا ہم سب تیاگا ، لاگیو کرارو چوڑو
( جاری )
فیس بک کمینٹ