اکثر طلباء مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ’’ادب‘‘ کیا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے میں طلباء سے یہ سوال کرتا ہوں کہ ’’زندگی‘‘ کیا ہے؟ اب آپ سوچیں گے ان کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ اور ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جواب بھی وہ دیتے ہیں وہ جامع نہیں ہوتا، اس میں صرف وہ زاویہ ہوتا ہے کہ جس سے وہ خود زندگی کو دیکھتے ہیں یا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ دوسرا بھی اس سے اتفاق کرے یا آپ کے جواب سے مطمئن ہو جائے۔ یہ سوال بھی کہ ادب کیا ہے، اسی نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ادب بھی ’’زندگی‘‘ کے اظہار کا نام ہے۔ادب کے لغوی معنی تہذیب کے ہیں ۔انسان کی بودوباش کا سلیقہ تہذیب ہے۔اگر سوچا جائے کہ ادب کیسے تخلیق ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ زندگی کے کینوس پر بکھرے رنگوں کو قوت گویائی رنگ دیتے ہیں ۔لفظ کٹھے میٹھے تیز و ترش شہد کی طرح شیریں اور بچے کی طرح شریر ہوتے ہیں ۔لفظ نہ ہوں تو پوری کائنات پر ایک جامد سکوت طاری ہو جائے ۔ہر چیز خاموش نظر آئے آسمان چپ، زمین چپ، محبت کا سارا جہاں چپ۔محبت سچی ہو یا جھوٹی، جذبے سچے ہوں یا کچے ہر بات ہر جذبہ اظہار کے لئے لفظوں کا محتاج ہوتا ہے ۔ادب کے اظہار سوچ و فکر اور جذبات کے لئے ازل سے ابد تک ایک ہی زبان استعمال ہوتی ہے ۔انسانی جذبات واحساسات اور بلند سے بلند تر خیالات کا فنی اظہار ہے ۔اس میں سماجی اور افادی پہلو ہوتا ہے ۔فنی اور جمالیاتی بھی اس کی یہ خصوصیت اسے زندگی سے ہم آہنگ کرتی ہے ۔”ادب برائے ادب‘‘ اور’’ ادب برائے زندگی‘‘ کی بحث ہرگز نئی نہیں ہے۔خا ص طور پر 1917ء میں روس میں بالشویک(سوشلسٹ) انقلاب نے ایشیا کے ممالک کی سیا سی تحریکوں پر اثر ڈالا تو وہیں دوسری طرف نہ صرف ایشیا ئی ممالک بلکہ یورپ میں بھی ’’ادب برائے مقصد‘‘کے نظریے کو بھرپور پذیرائی ملنا شروع ہوئی۔بر صغیر کے ادبی حلقے بھی’’ ادب برائے ادب ‘‘یا ’’ادب برائے مقصد ‘‘کی نظریا تی بحث سے متا ثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔اور پھر اسی ادبی بحث کے تنا ظر میں بر صغیر میں با قاعد ہ طور پر ترقی پسند تحریک کا بھی آغاز ہوا، جس نے برصغیر کی بڑی اور کئی چھوٹی زبا نوں کے ادب پر اپنے نقوش مرتب کئے۔ اس ترقی پسند تحریک نے ’’ادب برائے مقصد ‘‘ کے تصور کو بھر پور طریقے سے اجا گر کیا۔برصغیر کے ہی تنا ظر میں جن ادیبوں اور دانشوروں نے ’’ادب برائے مقصد‘‘ کے تصور کو بھر پور نظریاتی جہد دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ان میں اختر حسین رائے پوری(1912-1992ء) کا نام سر فہرست ہے۔کسی بھی تہذیبی معاشرے کے وہ فرد جو کہ معاشرے کی اصلاح کے طلبگار ہوتے ہیں اس اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ،وہ اپنے”علم ،ذہانت، توانائی ” کو یا تو مذہب پر صرف کرتے ہیں یا کہ ان سے ادب کے چراغ روشن کرتے ہیں ۔کسی بھی ” تہذیب“ میں ادب کی حیثیت یا تو” مذہب“ کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام انسان سما جائیں ۔یا پھر انسانیت کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام مذہب سما جائیں ۔ ۔ مشرقی اور مغربی تہذیبوں میں جنم لینے والا ادب بہر صورت ” مذہب اور انسان “ کے درمیان پیدا ہونے والے ان اختلافات پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ” حقیقت و مجاز “ کی تلاش میں ہر انسان کو پیش آتے ہیں ۔۔ہر تہذیب میں ادب بہت سی اقسام میں تقسیم الگ الگ ناموں سے سامنے آتا ہے ۔۔۔اور ایک ہی حقیقت کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے ۔ یہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ چاہے ” فحش ادب ہو ،چاہے مزاحمتی، تعمیری یا تنقیدی “۔ادب کسی بھی زباں ، خطے یا تہذیب کا ہو فطرت اور رومانوی رنگ ہر ایک ادب میں مشترک اور لازم و ملزوم ہے۔ جس سے ادب کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ