گزشتہ ماہ ظہور چوہان کا شعری مجموعہ ” روشنی دونوں طرف “ موصول ہوا ۔نجی مصروفیات کی بنا پر مطالعہ نہ کر سکا۔آج جب کتاب کھولی تو پہلی نظر سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کے اس شعر پر پڑی۔
میں کوجھی میرا دلبر سوہنا، میں کیوں کر اُس نوں بھانواں ہُو
جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ظہور چوہان کا صوفی ازم پر کس قدر یقین ہے ۔”روشنی دونوں طرف “ ان کا چوتھا شعری مجموعہ ہے ۔اس سے قبل تین شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ہجر اک مسافت، پسِ غبار اک ستارہ اور گونجی آواز حویلی میں قارئین میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں ۔ ”روشنی دونوں طرف “ کی اصطلاح استعارہ کے طور پر استعمال کی گئی ہے کیونکہ چوہان صاحب محبت کی روشنی تقسیم کرنے کے متمنی ہیں ۔
بیچ میں دیوار ہے اور زندگی دونوں طرف
یعنی اک جلتے دئیے کی روشنی دونوں طرف
شاعر نے انتساب اپنے والد کے نام کیا ہے ۔جس سے ان کی اپنے والد کے ساتھ سعادت مندی کا اظہار ہوتا ہے ۔اس کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں ۔
میں جس وجود سے جڑا ہوں
وہ نام میرے وجود سے ہے
غزل کی اردو ادب میں پسندیدگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ہر دور میں اہل اردو کے جذبات و احساسات کا ساتھ نبھانے میں کامیاب رہی ہے ۔حالات کا تیزی سے بدلنا اور داخلی و خارجی اتار چڑھاؤ کے باوجود ظہور چوہان کم و بیش ہر قسم کے تجربات کامیابی سے غزل میں بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
یہ میرا سایہ ہے دیوار پر کہ میں خود ہوں
پتہ نہیں میں اِدھر یا اُدھر کھڑ ا ہوا ہوں
ایک دنیا مرے اطراف ہے آباد ظہور
گھر کے باہر مجھے جانے کی ضرورت نہیں
کسی بھی معاشرے میں تخلیقی عمل اور جدت پسندی کا انحصار انفرادی آزادیوں، صحت مند مقابلے، آزادی اظہار کا تنوع اور باہمی برداشت کی وسعت پر ہوتا ہے ۔یہ تمام چیزیں ظہور چوہان کی شخصیت میں بتدریج اتم پائی جاتی ہیں ۔جس کا اظہار وہ کچھ یوں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
زخم کھا کر بھی دوستوں سے ظہور
دوستی بانٹتے ہیں لوگوں میں
اگر ان کی شاعری کا آہنگ دیکھا جائے تو اس میں جدت اور روایت دونوں موجود ہیں ۔جو کہ اچھے شاعر کی خصوصیت ہوتی ہے ۔انہوں نے اپنی غزل میں سادہ بیانیہ کو جگہ دی ہے ۔
یہ تجربات مسلسل جو کیے تو جانا
ہر محبت کی ظہور اپنی ہے تاثیر نئی
ظہور اہل محبت پہ حرف آئے گا
اگر کوئی بھی ہوا حادثہ محبت میں
اچھی شاعری تشریح کی محتاج نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ ظہور چوہان کے شعری مجموعے ”روشنی دونوں طرف “ کا دیباچہ یا پیش لفظ نہیں ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ ظہور چوہان کی مقبولیت دیباچوں ، پیش لفظوں کی محتاج نہیں ۔
خدایا! دوسری کثرت سے دینا
مجھے پہلی محبت کم ملی ہے
شاعر چاہتا کیا ہے؟ صرف یہی کہ اسے پڑھا جائے، سنا جائے اور اُس کو اُسی کی شاعری کے حوالے سے جانا جائے ۔اس لئے شاعر کا کام محض شاعری کرنا ہے ۔پورے دھیان اور گیان کے ساتھ جو کہ ظہور چوہان ہر غزل میں نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
گزرا ہوں ظہور کس جگہ سے
پاؤں میں زمین ٹھہر گئی ہے
فیس بک کمینٹ