آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں کے ساتھ گزارے جانے والا دن۔ بعض احباب کہتے ہیں کہ وہ جمعے کی رات اکٹھے ہوتے ہیں ۔ بعض نے اس کے لیے ہفتے کی شام مختص کی ہوئی ہے۔ مگر سب کا ماننا ہے کہ اتوار کی دوپہر بیٹھک کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ بہت سے گھروں میں یہ سلسلہ نسل در نسل چلا آرہا ہے۔ بڑے ابّا کے گھر سب 11بجے سے اکٹھے ہونا شروع کردیتے ہیں۔ نمازِ ظہر کے بعد اکٹھے ما حضر تناول کرتے ہیں۔ بعض ہوٹلوں نے دیکھا دیکھی اتوار کو برنچ کا اہتمام کردیا ہے۔ صاحب استطاعت اپنے اہل خانہ کو وہاں مدعو کرلیتے ہیں۔ بہت سے خیال دار ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنی رہائش گاہ ہی ایسے خوبصورت انداز سے تعمیر کروائی ہے کہ سب بیٹوں کے لیے الگ الگ گھر اسی کے اندر ہیں۔ ہر روز ہی سب کی آپس میں ملاقات ہوجاتی ہے۔
مشترکہ خاندان مشرق کی ایک حسین روایت ہے۔ مغرب اور بالخصوص امریکہ اس روایت کو ختم کرنے کے لیے مختلف طور طریقوں کی ریت ڈال رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف مغرب کے سنجیدہ حلقے اس سانجھے کنبے کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اور وہ اپنے ہاں یہ روش بحال کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ آپ اپنے تجربات کی رُوداد ارسال کیجئے۔ تاکہ اتوار کے کالم میں مل جل کر تبادلۂ خیال کریں۔
اگر آپ غور کریں تو ہمارے ہاں انتشار اسی لیے بڑھ رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی رائے جان کر ایک سسٹم نہیں قائم کرنا چاہتے۔ اکیسویں صدی انسان کے لیے بہت سی آسانیاں لے کر آئی ہے۔ مگر ہمارے شہر ان آسانیوں سے خالی ہیں ۔
بات شہروں کی ہورہی ہے۔ کراچی میں تو کئی ملک سمائے ہوئے ہیں۔ ہر ٹاؤن میں کئی کئی شہر ہیں۔ لیکن بہت ہی خستہ حالت میں۔ شہری سہولتیں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے دنوں میں لگتا تھا گلی کوچے مسکرارہے ہیں۔ اب وسیم اختر کے زمانے میں سڑکیں۔ محلّے روٹھے روٹھے لگتے ہیں۔ سب کسی نہ کسی عارضے میں مبتلا ہیں۔ وسیم اختر بھی بے چارے کیا کریں۔ اختیارات ایک اک کرکے چھین لیے گئے ہیں۔ پرویز مشرف دریا دلی سے شہروں کو فنڈز جاری کرتے تھے۔ اب اسلام آباد نے ہاتھ روک لیے ہیں۔ اسلام آباد بھی کیا کرے۔ 18ویں ترمیم نے یہ خزانے پشاور۔ لاہور۔ کراچی۔ کوئٹہ صوبائی حکومتوں کو دے دئیے ہیں۔ صوبے خود تو وفاق سے خود مختاری چاہتے ہیں لیکن ضلعوں اور تحصیلوں کو خود مختار دیکھنا نہیں چاہتے۔ پہلے برسوں وفاق یا مرکز کے دماغ میں یہ حقیقت نہ جگہ بناسکی کہ وفاق کا وجود صوبوںسے ہی ہے۔ اب صوبے اس شعور سے عاری ہورہے ہیں کہ صوبے کی ہستی اضلاع اور تحصیلوں سے ہی ہے۔ ریاست کے اصل مالک عوام ہیں۔ جنہیں ٹی وی چینلوں نے مل کر جل کر مونث بنادیا ہے۔ جس کی گواہی آدھی ہوتی ہے۔ جمہوریت گلی کوچوں سے شروع ہوتی ہے۔جتنا چھوٹے سے چھوٹا یونٹ(وحدت) ہوگا۔ اتنا ہی عوام کی فیصلہ سازی میں شرکت زیادہ ہوگی۔ پورے ملک کو ون یونٹ بنانے کے تجربے پہلے بھی ناکام ہوچکے ہیں۔
میں نے ابھی۔ جھنگ ۔ فیصل آباد۔ سرگودھا کے گلی محلّوں میں اپنے ہم وطنوں کو محرومیوں اور مشکلات سے اسی ذہنی دبائو میں دیکھا جس کا تین بار وزیر اعظم رہنے والے نے جیل میں تجربہ کیا۔ جیل جانا کسی دَور میں لیڈر بننے اور عوام میں مقبول ہونے کے لیے ضروری ہوتا تھا۔ اب ہمارے رہنما جیل سے چند ہفتوں کی رہائی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ کچھ گرفتاری سے بچنے کے لیے ضمانتوں پر لاکھوں دے رہے ہیں۔ حالانکہ جیل میں تو انسان کو خود سے ملنے کا کھلا وقت ملتا ہے۔ مگر حکمرانوں کی یہ نسل تو اپنے آپ سے ملنے سے ڈرتی ہے۔ کیونکہ ان کا ضمیر بہت سے ایسے سوالات پوچھ لے گا جن کا نیب کو بھی علم نہیں ہے۔
ان حکمرانوں نے ہی اضلاع اور تحصیلوں سے خود مختاری چھینی ہے۔ لاہور۔ کوئٹہ۔ ملتان۔ حیدرآباد۔ سکھر۔ لاڑکانہ۔ چنیوٹ۔ راولپنڈی۔ پشاور۔ مردان۔ قلات۔ پشین۔ میں بھی شہری سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ گندگی۔ گندے پانی کا نکاس نہیں ہے۔بازاروں۔ سڑکوں پر پانی گٹر سے اُبل اُبل کر صوبائی خود مختاری کا منہ چڑارہا ہے۔ سڑکوں کو تجاوزات نے بوڑھا کردیا ہے۔ بس اڈّے۔ مسافروں سے کہہ رہے ہیں :
ان ہی ’دلدلوں‘ سے ہوکر اگر آسکو تو آؤ
یقیناََ آپ کے شہر میں بھی یہی حال ہوگا۔ سندھ اور پنجاب میں دو بڑی پارٹیوں کی صوبائی حکومتیں کئی کئی برس رہی ہیں۔ سندھ میں تو اب بھی پی پی پی ہی برسراقتدار ہے۔ دارُالحکومت اور حیدر آباد کو تو کہہ لیں کہ یہاں لسانی خلیج ہے اس لیے منتخب بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور فنڈز نہیں دئیے جارہے۔ حالانکہ یہ بھی آئین شکنی ہے۔ لیکن جہاں پی پی پی کے اپنے چیئرمین اور میئر ہیں وہاں بھی شہری سہولتیں ناپید ہیں۔ کے پی میں یہی حالت ہے۔ شہر کسی منصوبہ بندی کے بغیر پھیل رہے ہیں۔ بچے تو ہر روز پیدا ہورہے ہیں۔ عارف حسن یاد آتے ہیں۔Unplanned Cities بڑی ہی اہم کتاب کے مصنّف۔ مگر کوئی سنتا ہے نہ پڑھتا ہے۔
اپنے طور پر بلڈر نئی نئی بستیاں بسارہے ہیں۔بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیاں بے دماغ ہیں ۔ ماسٹر پلان مسخ کیے جارہے ہیں کیونکہ ہم سب کو تاریخ مسخ کرنے کی مہارت ہے۔ کچی آبادیاں پولیس اور ڈپٹی کمشنروں کی مدد سے خود رو جھاڑیوں کی طرح اگ رہی ہیں۔ پینے کا صاف پانی اکثر شہروں میں میسر نہیں ہے۔ عوامی ٹرانسپورٹ کی فکر کسی کو نہیں۔ اندرون شہر چلنے والی بسیں غائب ہوچکی ہیں۔ ان کی جگہ چنگچیاں گلیوں سڑکوں پر اٹکھیلیاں کررہی ہیں۔ آفریں ہے ان بہنوں ماؤں پر جو ان میں سوار ہوتی ہیں۔ اور صحیح سالم منزلوں پر پہنچ جاتی ہیں۔ زندہ لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں تو مُردوں کو کون پوچھے گا۔ قبرستانوں میں کچرے کے ڈھیر ہیں۔ گندا پانی دندنا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چھوٹے شہروں میں تمام ملکی اور غیر ملکی برانڈز پہنچ چکے ہیں۔
ایسا نہیں لگتا کہ کوئی ادارہ بھی شہروں میں رہنے والوں کی حالت زار دیکھ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں زندگی کی سہولتیں دیکھنے والے سمندر پار پاکستانی بھی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ شہر شہر یونیورسٹیاں ہیں۔ کالج ہیں۔ دینی مدارس ہیں۔ کوچنگ سینٹر ہیں۔ ادبی انجمنیں ہیں۔ اساتذہ۔ ادیب۔ شاعر۔ کالم نویس۔ جو ٹرمپ۔ مودی ۔ ولی عہد سعودی عرب۔ عمران خان سے دو دو ہاتھ کرنے کو بے تاب رہتے ہیں۔ اپنے آس پاس کی بات نہیں کرتے۔ جن گلی کوچوں میں ان کے بیٹے بیٹیاں۔ پوتے پوتیاں۔ نواسے نواسیاں سانس لے رہے ہیں۔ وہاں کتنی گندگی ہے۔ موت کے کتنے سامان ہیں۔ اس پر احتجاج نہیں کرتے۔
جمہوریت مسلّمہ طور پر اچھا نظام ہے۔ لیکن جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی ادارے ہیں۔ یہ جمہوریت کے درخت کی جڑیں ہیں۔ اگر ان جڑوں کو پانی نہیں ملے گا تو جمہوریت کیسے پھلے پھولے گی۔بلدیاتی اداروں کو مطلوبہ اختیارات اور فنڈز ملیں گے تو شہر سانس لے سکیں گے۔ یونیورسٹیوں کو اپنے شہر کا حق ادا کرنا ہوگا۔ تحقیق کرکے حقائق سامنے لائیں۔ طلبہ آواز بلند کریں۔ پلاننگ کمیشن بھی لمبی نیند سے بیدار ہو۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ