سارا معاملہ جاتی اور آتی صدیوں کا ہے۔ بنیادی طور پر ہمیشہ دو ہی طاقتیں برسرِ پیکار ہوتی ہیں۔ ایک وہ جنہیں جاتی صدیاں جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے جانا بھول جاتی ہیں، دوسری وہ جنہیں آتی صدیاں گود لینے کو بےتاب ہوتی ہیں۔ ہر قبیلہ، ہر سرزمین اپنی گزری صدیاں ساتھ لے کر چلتی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ گزشتہ صدیاں اور آئندہ صدیاں آپس میں کب گھل ملتی ہیں۔آپ کا تعلق کسی بھی فقہ سے ہو۔ دائیں یا بائیں بازو کے لبرل ہوں یا قدامت پسند، کسی دوسرے مذہب کے پیروکار ہوں، آپ میرے ساتھ اِس نکتے پر تو متفق ہوں گے کہ پاکستان 72سال بعد وہاں نہیں ہے جہاں اِسے ہونا چاہئے تھا۔ اِس سے آگے یہ تحقیق ایک فطری امر ہے کہ اگر پاکستان اپنے مطلوبہ مقام پر نہیں ہے، دنیا کے ہم قدم نہیں ہے تو کتنا پیچھے ہے، کن شعبوں میں زیادہ پیچھے ہے اور کن میں کم، پاکستان کی ہیئت اور انتظامی ڈھانچے کے حوالے سے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کونسا صوبہ زیادہ پیچھے ہے۔ وفاق صوبوں سے ہوتا ہے۔ پاکستان کے تاریخی تناظر میں تو صوبے پہلے سے موجود تھے۔ اُن پر وفاق کی چادر پھیلائی گئی ہے، کہیں کہیں تیز ہوائیں چادر کو اڑانے لگتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے تاریخی بھی اور جغرافیائی بھی کہ ہر صوبے کی اپنی اپنی صدیاں ہیں، کسی کی زیادہ کسی کی کم۔
پاکستان کا تجربہ ایک چیلنج تھا، ایک چیلنج ہے۔ سماجی بھی، علمی بھی، سیاسی اور معاشی بھی، سب سے زیادہ انتظامی۔ یہ تجربہ جاری ہے۔ بہت سے حلقے مایوس ہو جاتے ہیں کہ 1971میں سقوطِ مشرقی پاکستان سے یہ تجربہ ناکام ہوگیا، ایسا نہیں ہے۔ ڈھاکہ سے چٹا گانگ والے ہم سے زیادہ مسلمان ہم سے زیادہ سیاسی شعور رکھنے والے تھے۔ ہم سے پہلے جاگیرداریوں کا خاتمہ کرچکے تھے۔ وہ زیادہ دیر ہماری مصلحتوں، حیلوں، بہانوں اور سودے بازیوں میں اشتراک نہ کر سکے۔ اِس لئے اُنہوں نے ایک الگ راستہ اختیار کر لیا۔ جنوبی ایشیا میں ایک اور آزاد ریاست وجود میں آگئی۔ لگا تو یہ کہ وہ تختِ لاہور سے تنگ آئی مگر در حقیقت وہ تختِ دہلی سے آزاد ہوئی۔ بھارت اپنی پوری قوت، فوجی اور اقتصادی اس لڑائی میں جھونک کر بھی اُسے اپنی زیرِ تسلط ریاست نہ بناسکا۔ مسلم بنگال کو کشمیر کی طرح اپنے جبر و غضب کی تجربہ گاہ میں تبدیل نہ کرسکا۔ مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش کی اپنی گزشتہ صدیاں، اپنی روایات ہیں۔ جنہیں حسینہ واجد شیخ اپنے جمہوری استبداد سے بھی دبا نہیں سکی ہے۔ وہاں تحریک پاکستان موجودہ پاکستان میں شامل علاقوں سے زیادہ چلی تھی۔ تحریک پاکستان کے بنیادی مقاصد انگریز سے آزادی، ہندو اکثریت کے غلبے سے مزاحمت، ایک فرد ایک ووٹ تھے۔ نام چاہے بنگلہ دیش ہو گیا ہو مگر اُن مقاصد کی تکمیل وہاں بہتر ہورہی ہے۔
موجودہ پاکستان میں تحریک پاکستان، قیامِ پاکستان سے قبل کی نسبت اب زیادہ جوش و جذبے سے چل رہی ہے۔ پاکستان کے قیام کا تجربہ ابھی جاری ہے۔ اکیسویں صدی اپنے ساتھ نئے سماجی، سیاسی، اقتصادی، فکری اور مذہبی شعور لے کر آئی ہے۔ جہاں قومیں اپنی گزشتہ صدیوں اور رواں صدی کا امتزاج ایک نظام میں ڈھالتی آئی ہیں وہاں اکیسویں صدی کی آزادیاں، زندگی کی آسانیاں اپنے عروج پر ہیں۔ وہاں مذہب ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے نہ جاگیرداری۔ یہ ایسے ممالک ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ ادارے اپنی اپنی حدود میں کام کررہے ہیں۔ کوئی اپنی حد پار کرنے کی سوچتا بھی نہیں ہے۔ کسی شعبے میں ایسا خلا پیدا نہیں ہوتا کیونکہ سب اپنا اپنا کام ہمہ وقت کررہے ہوتے ہیں۔
ویسے تو پاکستان 14اگست 1947سے ہمیشہ نازک دَور سے گزرتا رہا ہے۔ جہاں ایسے تجربات کئے جاتے ہوں۔ مختلف ماضی، مختلف سوچیں رکھنے والے جب ایک چھتری تلے جمع ہوتے ہیں تو یہ سماجی تنازعات، فکری تصادم اور کبھی کبھی مسلّح جھڑپیں عین فطری ہوتی ہیں۔ اِس حوالے سے لمحہ موجود میں ذہنی بے چینی شدت اختیار کررہی ہے۔ آج کل بڑے شہروں میں اِس اضطراب کا دائرہ وسیع ہورہا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ تجربات اِسی شہر پر کئے گئے ہیں۔
شہروں میں بے چینی کی سب سے بڑی وجہ بلدیاتی اداروں کی بے اختیاری ہے۔ سب ترقی یافتہ قومیں شہروں کا نظام مقامی بااختیار حکومتوں سے چلاتی ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں وفاقی اور صوبائی حکومتیں تو بااختیار چاہتی ہیں لیکن اضلاع کو بے اختیار رکھتی ہیں۔ کراچی میں سب سے کم اختیارات والی شہری حکومت ہے۔ اِس لئے شہر میں بے چینی فطری ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اپنے گھر بار چھوڑ کر آنے والے اپنی صدیاں ساتھ لے کر آئے تھے۔ جن میں اخلاقیات، علم، تہذیب کے بے شُمار رنگ تھے۔ سندھ میں ہمیشہ سے رہنے والوں کی اپنی شاندار روایات تھیں اور ہیں۔ اُن میں قدرِ مشترک تلاش کرنے کے بجائے اختلافات زیادہ ڈھونڈے گئے۔ کراچی میں رینجرز نے بظاہر امن وامان قائم کرلیا ہے۔ کراچی کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم اپنے سربراہ کی پالیسیوں کے سبب پارہ پارہ ہو چکی ہے مگر کراچی کے شہریوں کو وہ مقام نہیں مل سکا، جو اُن کا حق ہے۔ اِس میں سب زبانیں بولنے والے شامل ہیں۔ ایک بڑے شہر میں زندگی میں جو آسانیاں ہونا چاہئیں وہ مہاجر کو حاصل ہیں نہ سندھی کو، نہ پنجابی، نہ پٹھان اور نہ بلوچ کو۔ سیاسی جماعتیں مقامی حکومت کو تو بےاختیار کرتی ہی ہیں، ساتھ اپنی مقامی تنظیموں کو بھی۔ کارکنوں سے بھی اُن کا رابطہ مستحکم نہیں ہوتا۔ اِسی طرح شہریوں سے بھی کوئی رشتہ قائم نہیں رہتا۔ کراچی فلیش پوائنٹ بننے والا ہے۔ ایک زمانے کے کراچی بدر طالب علم نفیس صدیقی کی نئی تنظیم نے اپنا نام ہی فلیش پوائنٹ کراچی رکھا ہے۔ اُدھر لاہور میں پرائیویٹ اور سرکاری درسگاہوں کے اساتذہ اور درد مند پاکستانیوں نے ایک فورم تشکیل دیا ہے جو اعلیٰ تعلیم کے کمیشن کی طرف سے درسگاہوں کے فنڈز میں 50فیصد کمی، مذہبی شدت پسندی، امیر غریب میں بڑھتی خلیج، صنعتی پیداوار میں انحطاط جیسے معاملات پر تحقیق کرے گا، آواز بلند کرے گا۔ اُن میں کچھ نجی تعلیمی اداروں کے محترم اساتذہ نمایاں ہیں۔ اُن کا بنیادی عزم یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں سوال کرنے کا کلچر ہونا چاہئے۔
ضرورت یہی ہے کہ یونیورسٹیوں سے وابستہ باشعور پاکستانی، پاکستان کے تجربے کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی صلاحیتیں وقف کریں۔ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری اہلِ فکر ودانش کی ہی ہوتی ہے، حکمرانوں اور عساکر کی نہیں۔ جاتی صدیوں اور آتی صدیوں کے سنگم پر زندہ سوچ رکھنے والوں کو ہی چاق و چوبند کھڑا ہونا چاہئے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ