ہندو شدت پسندی کے مہان پرچارک نریندر مودی کو پھر ایک ارب سے زیادہ انسانوں کی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔امریکہ میں پہلے سے ایک شدت پسند سفید فام انسانیت سے کھیل رہا ہے۔ اسرائیل میں بھی شدت پسند یہودیوں کا سرخیل نیتن یاہو فلسطینیوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کررہا ہے۔ کیا اگلے پانچ سال بھی اسی تناؤ۔ کشاکش اور بحرانوں میں گزریں گے۔
آج اتوار ہے۔ اپنوں سے ملنے ملانے کا دن۔ رمضان المبارک تو ویسے ہی خاندان اور محلّے داروں کو ایک دوسرے کے قریب لے آتا ہے۔ رحمتیں ٹوٹ کر برس رہی ہیں۔ سحر و افطار پر سب اکٹھے ہوتے ہیں۔ افطار پارٹیاں بھی زوروں پر ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی ہوتی ہے مسجدوں میں نوجوانوں اور کم عمروں کو دیکھ کر۔
سرحد پار سے الیکشن کے نتائج سن کر سب کو تشویش ہورہی ہے کیونکہ بھارت کے سیاسی حالات پورے خطّے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب سے مودی سرکار آئی ہے بھارت میں تو مسلمانوں اور چھوٹی ذات کے ہندوؤں کے خلاف تشدد اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ پاکستان کے خلاف مودی کی نفرت بھری کارروائیاں دنیا کے سامنے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ایک ارب سے زیادہ شہری بھارت کی انسان دشمن پالیسیوں کے سبب زندگی کی راحتوں کو ترستے ہیں۔ فیصلہ ہندوستان کے عوام کا ہے۔ اس لیے احترام تو کرنا چاہئے۔ لیکن یہ خطّے کی سلامتی کا سوال ہے۔ ہمارے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کی زندگی اور تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے اس نتیجے کے اسباب اور آئندہ خطرات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے۔ جوشیلے بیانات اور جذباتی بھڑکاتی تقریروں اور تحریروں سے بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ مودی نے گزشتہ 5سال میں جس طرح ہندو اکثریت کے تعصّبات کو ہوا دی ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کو بڑھاوا دیا ہے۔ اس سے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ الیکشن اس بھاری اکثریت سے نہیں جیتیں گے۔
مغربی دارُالحکومتوں میں بھی مودی کی محاذ آرائی۔ ہندوستانیوں میں مزید طبقاتی تقسیم۔ ہندو مت کے غلبے کی پالیسیوں پر تنقید ہورہی تھی۔ لیکن دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کے جمہور نے پہلے سے زیادہ غلغلے کے ساتھ مودی کو پھر اپنے نجات دہندہ ہونے کا تاج پہنادیا ہے۔ دنیا کے اہلِ تدبر کو خبردار ہونا چاہئے کہ اس سب سے زیادہ غریب آبادی والے ملک میں یہ کیسے رجحانات جلا پارہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں قبل از مسیح صدیوں کی وحشتیں غالب آرہی ہیں۔ جس علاقے کو روشن خیال اور آزاد سوچ رکھنے والا جان کر مغربی کمپنیاں اربوں ڈالر سرمایہ لگارہی ہیں۔ وہاں کس قسم کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تو مسلمانوں پر 72سال سے جاری مظالم اور نا انصافیوں میں ان 5سال میں شدت کا اضافہ ہوا ہی ہے ۔ دوسری ریاستوں میں بھی یہ 5سال اقلیتوں اور چھوٹی ذات کے ہندوؤں پر مصائب اور قیامتیں لادتے رہے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے معاملے میں سارا ہندوستان ایک ہوجاتا ہے۔
لیکن ہندوستان کے معاملے میں سارا پاکستان ایک نہیں ہوتا ہے۔
کہیں جمہوریت کے تسلسل۔ کہیں عدلیہ کی آزادی۔ کہیں فوج کی سیاسی امور میں عدم مداخلت کو بنیاد بناکر بھارت کو مثالی کردار قرار دیا جاتا ہے۔ تعصّبات سے بھرا ہندوستان مغرب کی ڈارلنگ بنا ہوا ہے۔
پہلے تو میں سوچ رہا تھا کہ پاکستانی پارلیمنٹ میں بھارتی انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال پر کھل کر دو تین روز بحث ہونی چاہئے۔ اور اس بحث کے تناظر میں ’انڈیا پالیسی‘ تشکیل دی جائے۔ لیکن پارلیمنٹ میں جو محاذ آرائی اور تقسیم موجود ہے اس میں یہی خطرہ ہے کہ بحث صرف اس نکتے پر مرکوز نہیں رہے گی۔ ہوسکتا ہے کہ ان انتخابی نتائج کو پاکستان کی غلط پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دے دیا جائے۔ اس لیے میرے خیال میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت میں نئی سیاسی صورتِ حال پر تفصیل سے بحث کی جائے۔
ملک میں امن کے نام پر قائم انسٹی ٹیوٹ۔ یونیورسٹیاں بھی بھارتی سیاسی منظر نامے کا تجزیہ کریں۔ اپنی سفارشات مرتب کریں۔ پھر اتفاق رائے سے ایک جامع ’انڈیا پالیسی‘ تشکیل دی جائے جو سب کو قابل قبول ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ مودی کی مسلمان دشمنی صرف جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے خلاف ہے ورنہ مشرقِ وسطیٰ ، خلیج اور مشرق بعید کے مسلمان ملکوں سے ان کے بہت دوستانہ تعلقات ہیں۔ یہ ترجیح بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے ۔ عالم اسلام بھی مودی کواسلام دشمن نہیں سمجھتا۔ ورنہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں بھارت کی وزیر خارجہ کو مدعو کیوں کیا جاتا۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان دفاعی اعتبار سے بھارت کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے۔ پلوامہ کے بعد کے واقعات میں یہ باقاعدہ ثابت بھی ہوگیا۔ ابھی نندن ابھی کسی کو نہیں بھولا۔ مودی جی کو بھی نہیں بھولا ہوگا۔ لیکن ہم معاشی طور پر بھارت کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں۔ روپے کی حالت دیکھ لیں۔ قرضوں کا بوجھ اور ادائیگی۔ آئی ایم ایف کی شرائط۔ کارخانوں کی بندشیں۔ روزگار کے مسائل۔ بھارت پاکستان کو اقتصادی طور پر مزید کمزور کرے گا۔ ریکوڈک جیسے منصوبے التوا کا شکار ہیں۔ ایران گیس پائپ لائن سرد خانے میں ہے۔ برآمدات کم ہوتی جارہی ہیں۔ معیشت کی ابتری کی ایک وجہ تو 72سال سے جاری حالت جنگ ہے۔ جس میں تین باقاعدہ جنگیں بھی ہوچکیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری افواج کا ایک بڑا حصّہ مصروفِ عمل ہے۔ حالت جنگ میں اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
میرا ضمیر مجھے بار بار احساس دلارہا ہے کہ مودی کے دوسرے دَور میں ہمیں سب سے زیادہ توجہ بلوچستان پر دینی ہوگی۔ بھارت اس کمزور گوشے سے اپنے تعصّبات کو زندہ رکھ سکتا ہے۔ بلوچستان میں سیاسی عمل کو تیز کیا جائے۔ وزیر اعظم مہینے میں کم از کم ایک دن بلوچستان میں گزاریں۔ گوادر بندرگاہ بھارت کو سب سے زیادہ کھٹکتی ہے۔ بلوچستان کے سیاسی نمائندوں اور عام بلوچستانی کے شکوک و شبہات دور کریں۔ اعتماد کی سخت کمی ہے۔ سی پیک پر بھی مودی کی نظریں ہیں۔ وہ اس میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے پاکستانیوں کو استعمال کرسکتے ہیں۔ بلوچستان کے بلوچوں اور پختونوں کے جذبات کا احترام پاکستان کو آگے لے جائے گا۔ سندھ کو وفاق سے شکایتیں ہیں۔ ان کو دور کرنے سے اہل سندھ کا مرکز پر اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔
سندھ کے دارُالحکومت کراچی پر بھی بھارت کی نظر رہتی ہے۔ یہاں بھی محرومیوں کا احساس شدت اختیار کررہا ہے۔ کراچی والوں کے دل جیتنا بھی مودی کی یلغار روکنے کے لیے ضروری ہے۔ ’ایک انڈیا پالیسی‘ جس سے یہ یقین محکم ہو کہ ہندوستان کے مقابلے میں سارا پاکستان ایک ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ