آج اتوار ہے ۔
رمضان المبارک کے آخری چند دن۔ پیشگی عید مبارک۔
بہت ہی برکتوں۔ رحمتوں اور مغفرت والے دن تھے۔ مسجدوں میں بھی رونقیں رہیں۔ دلوں میں بھی۔ بیٹوں۔ بیٹیوں ۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے افطاری پر خوشگوار ملاقاتیں رہیں۔سیاسی طور پر اندرون ملک بھی۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی عدم تحفظ کا احساس بڑھا۔پاکستان کو مختلف ادوار میں بحرانوں میں گھرا دیکھا۔ لیکن ان دنوں میں جتنے محاذ بیک وقت کھلے ہوئے ہیں۔ ایسا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ چیئرمین نیب سے وابستہ اسکینڈل۔ حکومت کی طرف سے دو ججوں کے خلاف ریفرنس۔ سنگین جرائم میں جنرلوں کو سزائے موت۔ عمر قید اور دیگر سزائوں کی توثیق۔ وزیرستان میں فوجی چوکی پر حملہ۔ عید کے بعد اپوزیشن کی طرف سے حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان۔ ایران کیخلاف امریکی مہم جوئی۔ بھارت میں شدت پسند نریندرمودی کے اگلے پانچ سالہ دَور کا آغاز۔ اور پہلے سے زیادہ بھاری مینڈیٹ کیساتھ۔ سندھ اور وفاقی حکومت میں کشمکش۔ہر ادارہ عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہے۔ احتساب بہت ضروری ہے۔ مگر اعلیٰ فوجی افسروں پر جس قسم کے الزامات سامنے آئے ہیں پہلے ایسی کوئی خبر نہیں آئی۔ بلکہ ہم فخر سے کہتے تھے کہ ہندوستان کی را۔ روس کی کے جی بی۔ امریکہ کی سی آئی اے کی طرح پاکستان کی آئی ایس آئی سے کبھی کوئی منحرف نہیں ہوا۔ اب یہ سی آئی اے کیلئے جاسوسی کا جرم بہت تشویشناک ہے۔ اور اتنے اعلیٰ عہدوں پر فائز فوجی افسروں کی طرف سے۔
یہ خبریں۔ یہ حقائق۔ درد مند پاکستانیوں کے اعتماد کو متزلزل کررہی ہیں۔ ایسے میں تو آپ کا اپنے مستقبل یعنی اولادوں کے ساتھ رابطہ زیادہ تواتر کے ساتھ ضروری ہے۔ صرف اتوار ہی نہیں۔ جمعے کی سہ پہر بھی انکے ساتھ گزاریں۔ یہ واقعات سن کر انکے ذہنوں میں بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جنرلوں اور ججوں کے بارے میں۔ اور سب کچھ عمران انتظامیہ کے پہلے سال میں ہی ہورہا ہے۔ ایک طرف تو یہ تاثر ہے کہ یہ حکومت اڑان ہی نہیں بھرسکی۔ اتنی نا اہل ہے۔ دوسری طرف یہ بھی تاریخی واقعے رہے ہیں کہ جس حکومت کی ابتدا میں اپوزیشن نے زیادہ ہلّا گلا کرلیا اس کے باقی سال آرام سے گزرتے ہیں۔ کپتان کے بارے میں سلیکٹڈ کی اصطلاح زیادہ شد و مد سے استعمال ہورہی ہے۔ سلیکٹرز کو بار بار طعنہ دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے انتخاب پر نظر ثانی کریں۔ لیکن ایک بات سب مانتے ہیں کہ عمران خان کرپٹ نہیں ہیں۔ مگر Competentبھی نہیں ہیں۔ ابھی تک ان کی بلوغت اور پختگی کی کوئی مثال سامنے نہیں آئی ہے۔ لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ وزارت خزانہ کیلئے حفیظ شیخ کا انتخاب ان کی اہلیت کا ثبوت ہے اور جناب ڈاکٹر عشرت حسین کی بطور مشیر تقرری بھی۔یہ دونوں پاکستانی درد مند بھی ہیں۔ اپنے اپنے شعبوں کے ماہر بھی۔ حفیظ شیخ ویت نام سمیت کئی ملکوں میں معیشت کو استحکام دلواچکے ہیں۔ ان کی برآمدات میں اضافہ کرواچکے ہیں۔ وہ جب سندھ کے وزیر خزانہ تھے اس وقت بھی ان کو بہت قریب سے جاننے کا موقع ملا تھا۔ پھر صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں غیر ملکی دَوروں میں کئی بار فرصت کے لمحات ملے تو ان سے ان ملکوں کے تجربات پر گفتگو رہی۔ جو ان کی تجاویز اور خدمات کی بدولت اقتصادی بد حالی سے خوشحا لی کی طرف سفر کرنے لگے تھے۔ معیشت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں جذباتیت کام آتی ہے۔ نہ لفاظی۔ نہ شعلہ بیانی۔ نہ ہی سڑکوں پر احتجاج۔ یہ تو اعداد و شُمار۔ نظم و ضبط۔ سنجیدگی اور تدبر کا میدان ہے۔ برسوں سے ہم جو رنگ رلیاں مناتے آرہے ہیں قرض کی پیتے آرہے ہیں۔ تو فاقہ مستی ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔ آئی ایم ایف ہو۔ عالمی بینک۔ یہ ادارے دنیا نے برسوں کی ریاضتوں۔ مشاہدوں کے بعد تشکیل دیے ہیں۔ مشکلات میں پھنسے ملکوں کی مالی مدد کیلئے۔ اگر کوئی ملک اپنے طور پر معیشت درست راستے پر چلارہا ہے۔ جس کے اخراجات قابو میں ہیں۔ درآمدات سے برآمدات زیادہ ہیں۔ وہ آئی ایم ایف یا عالمی بینک کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ نہ ہی آئی ایم ایف یا عالمی بینک ان کو زبردستی اپنے شکنجے میں لے سکتے ہیں۔
ہمارے نوجوان ملک کی بہبود اور پیش رفت کیلئے بہت سی تجاویز اور منصوبے ذہن میں رکھتے ہیں۔ لیکن ہم انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں دیتے۔ یا تو وہ تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں۔ یا وہ پاکستان سے ہجرت کرجاتے ہیں۔ ایک ایسا ہی فیض آباد یوپی میں 1944میں پیدا ہونے والا حسن ناصر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے امیر ملکوں کی پُر کشش مراعات کو چھوڑ کر بلوچستان پہنچا۔ یہ دَور ہے بھٹو صاحب کا۔ بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی حکومت تھی۔ نوجوان انجینئر نے اپنی ایک کمپنی بنائی۔
بلوچستان کی بے آب و گیاہ سر زمین کو اس نے دنیا کی سب سے بڑی بنجر علاقے کی لیبارٹری قرار دیا۔ اس کے مسائل کی نشاندہی کی سب سے بنیادی مسئلہ پانی کی قلت۔ پھر انرجی۔ پھر معدنی وسائل کی دریافت ۔ مختلف علاقوں کے زمینی سروے کیے۔ اپنے طور پر اقوام متحدہ کے مختلف اداروں۔ امریکی حکومت اور یورپی حکومتوں کو خطوط لکھے۔ عملی منصوبے۔ نقشے انہیں بھیجے۔ حکومت بلوچستان سے معاہدے کیے۔45سال پہلے شمسی توانائی کی تجویز دی۔ لیکن مئی 1974کی ایک سہ پہر جب وہ قلات کے علاقے ہر بوئی کا جائزہ لے کر آرہا تھا۔ اور اس شام کوئٹہ میں معاہدوں پر دستخط ہوتے تھے۔ قلات سے کوئٹہ جانے والی سڑک پر اس کا راستہ روک کر گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا۔ شہید حسن ناصر کی بہن ڈاکٹر حبیبہ حسن نے اس کے منصوبوں ۔ نقشوں۔اور اسکے خوابوں کو ایک Desert can Bloom کی دستاویز میں یکجا کردیا ہے۔ بلوچستان کے خشک۔ بنجر سنگلاخ۔ پہاڑوں ۔وادیوں اور ریگ زاروں کو گل و گلزار بنانے کی کوشش کرتا حسن ناصر بلوستان کی سر زمین کو اپنے خون سے سیراب کرگیا۔ ملک میں کتنے ہی نوجوان ایسے ہوں گے جن کے پاس اس ملک کو کامیاب زرعی ملک۔ صنعتی طاقت بنانے کی ٹھوس تجاویز ہیں۔ پاکستان نوجوان ملک ہے۔ 60فیصد آبادی 15سے 35سال کے درمیان۔ حسن ناصر جیسے پُر عزم انجینئرز ہیں۔ سائنسدان ہیں۔ ان کا راستہ بیورو کریسی ۔جاگیرداروں نے مداخلت کرنے والے اداروں نے روکا ہوا ہے۔ پلاننگ کمیشن سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ سمندر پار پاکستانی ذہانت بھی رکھتے ہیں۔ دولت بھی۔اور پاکستان کو آگے لے جانے کی آرزو بھی ۔ عمران خان بھی ان کو موقع نہیں دے رہے۔ وہ اپنے ڈاروں۔ واؤڈوں اور حقوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ کرکٹ گراؤنڈ بہت محدود ہوتا ہے۔ تماشائی بھی کم ہوتے ہیں۔ پاکستان کا گراؤنڈ 881913 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ 22کروڑ تماشائی نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان زندگی آسان کرنے اور تحفظ کے احساس کیلئے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مجبوری یہ ہے کہ متبادل قیادت وہی ہے جن پر اربوں روپے سرکاری خزانے سے لوٹنے کے الزامات ہیں۔ جن کی حکومتی باریوں سے ملک پر ہزاروں ارب روپے کے قرضے ہیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان ہی پاکستان کو آگے لے کر بڑھے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ