ہر طرف ایک انتشار کا عالم ہے۔
وہ بڑے لوگ جیلوں میں ڈالے جارہے ہیں۔ ایسے دنوں کا چھوٹے لوگ یعنی اکثریت انتظار کیا کرتی تھی۔ لیکن وہ سب بھی اپنی جگہ پریشان ہیں۔ روپے کی قدر کم ہورہی ہے۔ اس لیے تنخواہیں بھی اخراجات کے سامنے عاجز ہورہی ہیں۔ ڈالر اپنی جولانیاں دکھارہا ہے۔ ہر چیز مہنگی ہورہی ہے۔ کوئی یہ بتانے والا نہیں کہ یہ اُتار چڑھاؤ کب تک جاری رہے گا۔ غلام اپنے اپنے آقاؤں کی دلجوئی کی خاطر اپنے زخم چھپارہے ہیں۔ کوئی بنی گالا کو خوش کرنے کے جتن کررہا ہے۔ کسی کو رائے ونڈ کی خوشنودی کی فکر ہے۔ کوئی بلاول ہاؤس کی نظر کرم کا منتظر ہے۔ کسی کو خلائی مخلوق کی دزیدہ نگاہی کی طلب ہے۔ کسی کو ریاض سے امید نوازش ہے۔ کوئی واشنگٹن کی نظروں میں جگہ پانے کے لیے بے تاب ہے۔
کتاب سے سب دور ہیں۔ حکمران بھی۔ اپوزیشن بھی۔ مسائل کا حل کتابوں میں ہی ملتا ہے۔ لیکن مسائل کا حل تو عوام کے سوا کوئی بھی نہیں چاہتا۔ مسائل دو چند ہورہے ہوں تو سب کی دکانداری چلتی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں۔ آپ نے اتنے ۔ حکمرانوں کو قریب سے دیکھا ہے۔عمران خان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں کیا وہ ناکام نہیں ہورہے ہیں۔ کسی بھی حلقے کو مطمئن نہیں کرپارہے ہیں۔ اب انہیں کیا بتاؤں۔ عمران خان حساب کے لیے زیادہ بے تاب رہتے ہیں۔ کتاب کی پروا نہیں کرتے۔ کتاب تحمل دیتی ہے۔ سوچ میں وسعت پیدا کرتی ہے۔ فیصلوں میں پختگی عطا کرتی ہے۔
مجھ سے زیادہ دانشمند۔ حالات کو بہت قریب سے دیکھنے والے۔ حکمرانوں کی قربت سے سرشار۔ اسلام آباد کی کروٹوں کا شُمار کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے میں لمحۂ موجود میں افق پر نمایاں شخصیات کے بارے میں گفتگو کرنے سے قاصر رہتا ہوں۔ اپنی کم علمی کا اعتراف کرتا ہوں۔ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر میں رہتا ہوں۔ جو کبھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں توازن کی طاقت رکھتا تھا۔ ہر حکمران حلف اٹھانے سے پہلے یا فوراً بعد 90پر حاضری دیا کرتا تھا۔
آں قدح بشکست وآں ساقی نماند
وہ صراحی ٹوٹ گئی ۔ وہ ساقی نہیں رہا۔
آج کراچی کے سابق نیک نام ناظم مصطفیٰ کمال پاک سر زمین پارٹی کی طاقت کا مظاہرہ کرنے والے ہیں۔ کراچی کا میدان خالی ہے۔ قسمت آزمائی ہورہی ہے۔ مصطفیٰ کمال کے پاس ٹیم اچھی ہے۔ مگر پاکستان میں صرف اچھی ٹیم نہیں اور بہت کچھ درکار ہے۔ طاقت کے مراکز سے این او سی۔ مافیاز سے این آر او۔
مجھے آج یہ ساری باتیں نہیں کرنی ہیں۔ میں تو پشین ( بلوچستان) سے محمد نبی فاضل کنز العلوم کی وٹس ایپ کی گئی ایک تصویر کی پسندیدگی سے سرشارہوں۔ کوئٹہ میں قائد اعظم لائبریری کے باہر طلبہ کی ایک لمبی قطار ہے۔ بتایا گیا کہ یہ لائبریری کھلنے کے انتظار میں ہیں۔ تصویر ایک دو ماہ پرانی کہی گئی۔ ہم تو لائبریریوں۔ خلق خدا کے عشاق میں سے ہیں۔ میں نے فیس بک پر آویزاں کردی۔ پاکستان بھر سے کتاب دوستوں نے پذیرائی کی۔ اور اللہ کا شکر ادا کیاکہ نوجوان لائبریری کا رُخ کررہے ہیں۔ صرف ایک سینئر ریٹائرڈ بیورو کریٹ نے اختلاف کیا کہ نوجوان کسی انٹرویو کے لیے آئے ہوں گے۔ ہماری افسرشاہی ہمیشہ کفران نعمت کی مرتکب ہوتی ہے۔اگر نوجوان لائبریری نہیں جاتے تو یہ قصور بھی حکمرانوں اور افسروں کا ہی ہے۔ کہ انہوں نے اس کے لیے کوشش نہیں کی۔ محمد نبی پشینی نے اپنی پی ایس ایل بنائی ہے۔Promoting Study and Library۔ وہ جامع مساجد میں بھی لائبریریاں قائم کروارہے ہیں۔ مفتی شفیع کا ایک قول بھی دہراتے ہیں کہ ہر امام مسجد کو چاہئے کہ مقتدیوں کے لیے مسجد میں کتب خانے کا اہتمام کریں۔ اس سے پہلے سوشل میڈیا پر سر شاہنواز بھٹو لائبریری لاڑکانہ کی وڈیو بھی گردش میں رہی۔ جس میں ایک ہجوم لائبریری کے باہر دروازہ کھلنے کا منتظر ہے۔ دروا ہوتا ہے تو یہ سیلاب اندر داخل ہوجاتا ہے۔ کرسیاں کم پڑ جاتی ہیں۔ ایک موقر اخبار نے بھی گزشتہ ہفتے علم کے پیاسوں کی یہ تصاویر اور رپورٹ شائع کی۔ بڑا میڈیا یہ حوصلہ افزا مناظر نہیں دکھاتا۔
کتب خانے جہاں بھی لوگوں کی آمدورفت کا مرکز رہے ہیں۔ ان قوموں نے تاریخ میں اپنا مقام بنایا ہے۔ کتابوں کے درمیان آپ ہوں تو صدیوں کی رفاقت میسر آتی ہے۔ 1970بلکہ 1980کی دہائی تک کسی سیاستدان کا ذاتی لائبریری کے بغیر تصوّر ہی نا مکمل رہتا تھا۔ میاں ممتاز خان دولتانہ کی ذاتی لائبریری کا ذکر ہمیشہ رہتا تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 70کلفٹن کی لائبریری میں تو بڑے بڑے عالمی رہنماؤں کی آمد بھی رہی۔ مجھے کئی بار اس تاریخی لائبریری میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ۔ شہید بے نظیر بھٹو کے ہمراہ بھی۔ اور اب غنویٰ بھٹو صاحبہ نے بھی اس خزانے کو دیکھنے کا موقع دیا۔ ممتاز ماہر قانون اور اسکالر خالد اسحٰق کی ذاتی لائبریری نے بھی کتنے ذہنوں کی آب یاری کی۔ ہری پور ہزارے سے کاظمی صاحب پورے ملک میں اپنی لائبریری کے لیے کتابیں جمع کرنے نکلتے تھے۔ سردار شیرباز مزاری کی ذاتی لائبریری بھی بہت اہم کتابوں کا ذخیرہ ہے۔مزاری صاحب ہر نئی اہم تازہ کتاب کی خرید کا اہتمام کرتے ہیں۔ خالد شمس الحسن کی ذاتی لائبریری میں قائد اعظم سے متعلقہ ملکی اور غیر ملکی کتابوں کا ایک خزانہ تھا۔ وہ نیشنل بینک میں جب تک تعلقات عامہ کے شعبے کے سربراہ رہے۔ ہر روز ہی وہاں ادیبوں۔ شاعروں کا ایک اجتماع ملتا تھا۔ بعد میں رسول احمد کلیمی نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا قیمتی کتب خانہ کراچی یونیورسٹی کو عطیہ کردیا گیا ہے۔ ان کے اہل خانہ نے صرف کتابیں ہی نہیں ایک پوری عمارت بھی تعمیر کروائی ہے۔
کتاب سے محبت کرنے والی ان عظیم ہستیوں کی بدولت ہی حرف و معانی کی خوشبو بکھر رہی ہے۔ ایک غالب کے عاشق صادق آباد کے قریب جنگل میں کتابوں کی دنیا بسائے ہوئے تھے۔ انیس جیلانی کی لائبریری میں بہت ہی نایاب کتابیں ہیں۔ ایک بارجانا ہوا تو ایک کمرہ روزنامہ ‘جنگ‘ کراچی کے کئی سال کے اخبارات کی باقاعدہ مجلّد فائلوں سے معمور تھا۔ بہت ہی ٹکسالی زبان میں۔ خوش خط مکتوب ارسال کرتے تھے۔
ایک خوش آئند ذکر سلطان خلیل کے توسط سے نصیب ہوا کہ کراچی کے کمشنر کراچی کی لائبریریوں میں توسیع۔ تزئین کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے باقاعدہ کراچی لائبریری کونسل تشکیل دی جارہی ہے ۔ پرانی کتابوں کا بازار ہر اتوار کو لگتا ہے۔ یہاں خواجہ زاہد سے وقتاً فوقتاً ملاقات رہی ہے۔ انہیں بھی کتابیں جمع کرنے کا اشتیاق ہے۔ دنیا بھر سے بالخصوص بھارت سے اُردو ادب۔ زبان۔ مسلمانوں کی تاریخ کے بارے میں کتابیں منگواتے رہتے ہیں۔ کسی دن ان کے کتب خانے میں بھی جانا ہے۔
کینیڈا میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کے تہہ خانے میں کتب خانہ بے مثال ہے۔ مشہور کتابوں کے پہلے ایڈیشن اقبال کی بانگ درا۔ بال جبریل۔ زبور عجم۔ ارمغان حجاز سب کے پہلے ایڈیشن۔ ڈکشنریاں مختلف صدیوں کی مخطوطات۔ مکتوبات۔
کتابوں کی یہ دنیا ہی عجب ہے۔ روشنی۔ تحمل۔ تدبر۔ قیادت کا سر چشمہ۔ حاکم وقت سے یہی گلہ ہے ۔
ہائے کم بخت تونے پی ہی نہیں
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)