خوشی بھی ہوتی ہے اور حسرت بھی کہ بہت سی قومیں کورونا پر قابو پاکر معمول کی زندگی کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ اسکولوں میں بچے بچیاں مسکراتے چہروں کے ساتھ داخل ہورہےہیں۔ بازار کی رونقیں بحال ہورہی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں لاک ڈاؤن دوبارہ کرنا پڑ رہا ہے۔ شہروں میں بعض علاقے پھر بند ہورہے ہیں۔ کورونا پھیلاؤ روکنے میں ہمارے ادارے اتنے سرگرم نہیں رہے جتنا اس کے پھیلانے میں حسب توفیق حصّہ لیا ہے۔ انتظامیہ۔ مقننہ۔ عدلیہ۔ میڈیا سب اس میں پیش پیش رہے ہیں۔ فارسی ضرب المثل یاد آتی ہے۔ہر چہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار۔ ایک عقلمند جو کرتا ہے وہی احمق بھی کرتا ہے لیکن بہت زیادہ خرابی کے بعد۔ ہر بحران کی طرح کورونا کی خوفناک وبا کے دوران بھی ہم پاکستانی قومی یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ حالانکہ کورونا نے ہم پر بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب حملے کیے ہیں۔
جان ہے تو جہان ہے۔ اگر انسان زندہ رہے گا تو عقیدت بھی ہوگی۔ سیاست اور معیشت بھی۔ اس وقت کورونا انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ کورونا پر قابو پانے میں کمیونسٹ ملک ویتنام کی بھی مثال دی جاتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی ویتنام نے کورونا کے خلاف جنگ کا اعلان اس نصب العین کے ساتھ کیا۔’’ اس وبا کے خلاف جنگ ایک دشمن کے خلاف جنگ کی مانند ہے‘‘۔ پھر مرکز، صوبے، شہر سب ایک جان ہوکر لڑے اور جنگ جیت گئے۔ کورونا ہمارا جانی دشمن ہے۔ نظریاتی بھی اور ملک کا دشمن بھی۔
شہر قصبے اور دیہات ہر جگہ کورونا کے متاثرین ابھر رہے ہیں لیکن کہیں بھی شہری حکومتیں فعال نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں اس جنگ میں مرکزی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لیا اور صوبائی حکومتوں نے شہر، دیہات کی مقامی حکومتوں کو ساتھ رکھا اور ایک ٹیم بن کر کورونا کی یلغار روکنے کی حکمتِ عملی مرتب کی۔ ہمارے ہاں پنجاب۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پرانی بلدیاتی حکومتیں میعاد ختم کرچکی ہیں۔ نئے الیکشن کسی نہ کسی بہانے ملتوی کیے جارہے ہیں۔ سندھ میں یہ حکومتیں ہیں لیکن صوبائی حکومت انہیں اپنا حریف سمجھتی ہے۔ اس طرح پورے ملک میں بلدیاتی ادارے غیر فعال ہیں اور اس مشترکہ دشمن کے مقابلے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے حالانکہ وہ اس جنگ کا ہر اول دستہ اور کورونا کے خاتمے میں بنیادی ستون بن سکتے ہیں۔
کینیڈا معیارِ زندگی میں ہمیشہ اولیت رکھتا رہا ہے۔ مثالی طرز رہائش۔ کورونا کے حملے اس پر بھی شدید ہیں۔ وہاں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی مشترکہ کوششیں ’ٹیم کینیڈا‘ کے مشن کے تحت شروع کیں۔ میونسپل حکومتوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے شہر میں جیسے چاہیں اقدامات کرسکتی ہیں۔شروع میں میونسپل اداروں کو نظر انداز کیے جانے کا شکوہ تھا۔ مگر جب اشتراک عمل ہوا تو 300 میونسپل حکومتوں کے 500مقامی لیڈروں نے مشترکہ بیان میں اس ’ٹیم ورک‘ کو پسندیدہ اور نتیجہ خیز قرار دیا۔ میونسپل اداروں کو مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ وہ بھی دور کردی گئیں۔ مقامی حکومتوں کے اسکول بورڈ اور ہیلتھ حکام سب ایک ٹیم کی طرح کام کررہے ہیں۔ یورپ میں جرمنی اس مشترکہ کاوش کی اعلیٰ مثال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا نظام جو اختیارات تقسیم کرتا ہے نہ کہ مرکز میں مرتکز کرتا ہے۔کورونا کے خلاف جنگ میں شہروں اور دیہات میں موجود منتخب میونسپل اداروں کے 400 عوامی صحت مراکز نے وفاق اور صوبوں کی پالیسیوں اور احکامات پر عملدرآمد میںمرکزی کردار ادا کیا۔ مقامی لیبارٹریز نے بھی بڑی سرعت سے ٹیسٹ کیے۔
جنوبی کوریا میں مقامی حکومتوں کے پہلے سے آفات ناگہانی سے تحفظ اور انتظامات کے مراکز ہیں۔ ان کے اپنے اسپتال اور لیبارٹریز ہیں۔ معلومات کی یکجائی اور احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد میں مرکز۔ صوبوں اور شہری حکومتوں نے مل کر اس وبا کے حملے ناکام بنائے ہیں۔ملائشیا میں ہم پہلے بھی بتاچکے ہیں کہ وہاں بھی قومی۔ صوبائی اور مقامی حکومتوں کا اشتراک مثالی رہا ہے۔ اس یکجہتی سے وہ کورونا کو شکست دے سکے۔
نیوزی لینڈ میں وزارت داخلہ نے تمام مقامی حکومتوں کے درمیان انتظامی اور مالی اشتراک عمل کو ترجیح دی۔ Covid-19 لوکل گورنمنٹ رسپانس یونٹ بھی قائم کیے گئے۔ اور مقامی حکومتوں کی پالیسی اور آپریشن ٹیم بھی بنائی گئیں۔ انڈونیشیا سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہے۔ ابتدا میں اقدامات بروقت نہیں کیے گئے اس لیے اموات بھی زیادہ ہوئیں اور متاثرین کی تعداد میں اضافہ بھی۔پھر مقامی طور پر قائم صحت اور انتظامی اداروں کو متحرک کیا گیا تو وبا کو روکنے میں کسی قدر کامیابی ہوئی۔ وہاں 34صوبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ یہاں بھی فوج کا غلبہ رہا ہے اس لیے زیادہ تر مقامی اداروں میں بھی سربراہ ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ ان کی وجہ سے نظم و ضبط قائم رکھنے میں مدد ملی۔
یہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ پاکستان میں یہ جنگ بلدیاتی اداروں کے اشتراک کے بغیر لڑی جارہی ہے۔ حکومتی نظام کا یہ بنیادی ستون بالکل غیر فعال ہے۔
کورونا سے جنگ میں مقامی حکومتوں کی فعالیت بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہ میئر، چیئرمین کونسلر اپنے علاقے سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ مقامی لوگوں کو ان پر اعتماد بھی ہوتا ہے۔ اور یہ ان کی پہنچ میں بھی ہوتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے ہوتے ہوئے فیصلے بھی جلد ہوسکتے ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی۔ ان کے ذریعے آگہی اور شعور پھیلانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ یہ اگر فعال ہوتے تو شہروں میں قرنطینہ مراکز بھی جلد قائم ہوجاتے۔ احساس پروگرام کی نقد رقوم کی تقسیم بھی زیادہ منصفانہ ہوتی۔ مقامی حکومتوں کو صوبائی حکومتیں اپنا دست و بازو سمجھیں۔ سندھ میں مقامی حکومتوں کو انتظامی اور مالی اختیارات دیے جائیں۔ پنجاب، کے پی، بلوچستان میں گزشتہ انتخابات کے منتخب میئر، چیئرمینوں اور کونسلروں سے کام لیا جائے۔ اس اشتراک کو ’ٹیم پاکستان‘ کا نام دیا جائے۔اور 14اگست کو کورونا سے آزادی کا ہدف حاصل کیا جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ