چھ دہائیوں سے بے عیب اُردو لکھنے کی مسلسل کوشش کرنے والا جب یہ دیکھتا ہے تو کتنا دُکھ ہوتا ہے کہ میڈیا میں محاورے ضائع ہورہے ہیں۔ ضرب الامثال کچرے میں پھینکی جارہی ہیں۔ الفاظ سے معانی چھینے جارہے ہیں۔ کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ کونسی ترکیب کہاں استعمال ہونی ہے۔ کونسی اضافت کہاں مفہوم دے سکے گی۔ حرف انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ حیوانوں اور انسانوں میں گفتگو اور تحریر کا ہی فرق ہے۔ ایک اک حرف۔ ایک اک سطر۔سو بار سوچنے کے بعد استعمال ہونی چاہئے۔
میں اپنے پڑھنے والوں کا بہت ممنون ہوں کہ وہ پاکستان کی نشاۃ ثانیہ میں ہر طرح سے معاونت کے لیے تیار ہیں۔ مہاجر کیمپوں کی رُوداد ہو یا انصار کی میزبانی یا ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات پاکستان بھر سے درد مند پاکستانی دامے درمے قدمے سخنے تعاون کے لیے آمادہ ہیں۔اب آپ بتائیے کہ پروگرام کیا بنایا جائے۔ سرکار کی طرف سے تو کوئی اشارہ یا پذیرائی نہیں ہے۔ مرکزی حکومت سے کسی نے اسے سراہا ہے نہ صوبائی حکومت اور نہ ہی بلدیاتی اداروں نے۔ حالانکہ یہ سب کا مسئلہ ہے۔ میں تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔1947 سے دیکھتا آرہا ہوں۔ پڑھتا بھی آرہا ہوں۔ پہلے بھی میں نے کئی بار عرض کیا ہے اب اس مرحلے پر پھر یہ گوش گزار کروں گا کہ پاکستان اب جن علاقوں پر مشتمل ہے۔ پنجاب۔ سندھ۔ کے پی ۔ بلوچستان۔ یہاں تحریک پاکستان اس شد و مد سے نہیں چلی تھی۔ جیسے ان علاقوں میں سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔جنہیں پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھا۔ دہلی ۔ یوپی۔ سماپی۔ بہار۔ مہاراشٹر۔ یہاں تحریک پاکستان کے جلسے جلوس بھی بڑے پیمانے پر منعقد ہوتے رہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی مجالس عاملہ کے اجلاس بھی انہی شہروں اور علاقوں میں ہوئے۔ جہاں تحریکیں بھرپور انداز میں چلتی ہیں۔ ریلیاں نکلتی ہیں۔ نعرے لگتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی سینٹرل کمیٹیوں کے اجلاس ہوتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں بزرگوں اور بالخصوص نوجوانوں میں اس تحریک کے مقاصد اور ولولے ذہنوں میں جاگزیں ہوجاتے ہیں۔ ان کی زندگی کے رُخ بدل جاتے ہیں۔ میرے اس تاثر پر جذباتیت سے رد عمل نہ دیں۔ بلکہ کتابیں ملاحظہ کریں اور دیکھیں آل انڈیا مسلم لیگ کے کتنے اجلاس حیدر آباد میں ہوئے۔ کوئٹہ میں بلائے گئے۔ پشاور میں جلوس نکلے۔لاہور ملتان میں کتنے جلوس سڑکوں سے گزرے۔
اور جب پاکستان بن گیا۔ تو ان علاقوں نے اپنے طور پر سرگرم ہونے کی کوشش کی۔ لیکن ان قومیتوں اور علاقوں کی اپنی کئی سو سالہ ثقافت۔ تمدن۔ غالب رہا۔ اس کے لیے ہمارے رہنمائوں ، حکمرانوں اور دانشوروں نے پنجاب۔ سندھ۔ کے پی اور بلوچستان کی صدیوں کو اپنانے کی کوشش نہیں کی۔ بلوچستان کی تہذیب کہیں آٹھ ہزار سال پرانی ہے۔ کہیں دس ہزار سال۔ سندھ میں پانچ ہزار سال کی ثقافت موجود ہے۔ کے پی میں گندھارا۔ پنجاب میں بھی صدیوں پرانی داستانیں۔ عشقیہ قصّے ہیں۔ جو لوگوں کے ذہنوں میں گونجتے ہیں۔ یہ علاقے جب پاکستان کا حصّہ بن رہے تھے تو ہمیں ان کا ممنون شکر گزار ہونا چاہئے تھا۔ان کے بزرگوں کی قدر کرنی چاہئے تھی۔ نوجوانوں کی تمنّائیں پوری کرنی چاہئے تھیں۔ ہم نے کسی کو سرحدی گاندھی کا لقب دے دیا۔ کسی کو سندھی گاندھی کا کسی کو بلوچی گاندھی کا۔اس طرح نفرتوں کی دیواریں کھڑی کی گئیں۔
حقیقت حال یہ ہے کہ ان سب علاقوں کی صدیوں قدیم ثقافتیں اور رہن سہن ہیں اور بھارت کے مختلف علاقوں سے آنے والے بھی اپنی صدیاں ساتھ لائے تھے۔ ان کے تمدن تھے۔ رکھ رکھائو تھا۔ یہ تہذیبیں ایک دوسرے میں جذب ہوکر پاکستانی تہذیب میں ڈھلنا تھیں۔ مگر بعض حلقوں نے شعوری طور پر یہ امتزاج نہیں بننے دیا۔ حالانکہ فطری عمل یہی ہوتا ہے۔
میں کئی سال سے بار بار کہہ رہا ہوں کہ ہمیں تحریک پاکستان پھر نئے سرے سے شروع کرنی چاہئے۔ پاکستان میں اب ایک قومی نظریے کا غلبہ ہونا چاہئے۔ صرف اور صرف پاکستانی۔ مگر اپنے صوبوں کی لسانی میراث۔ تہذیبی ورثوں کا احترام کرتے ہوئے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم سب کس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں۔معیشت کے حوالے سے ثقافت فنون لطیفہ ۔ دینی شعائر۔ شہری اصول۔ قواعد و ضوابط ۔ تقسیم ِاختیارات کا متفقہ فارمولا بھی ضروری ہے۔
ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملکوں نے اپنی سمتیں متعین کرلی ہیں۔ چین کی بے مثال ترقی ہمارے سامنے ہے۔ ملائشیا۔ انڈونیشیا اور سنگاپور کو دیکھ لیں۔ اس وقت میں بہت غور کرتا ہوں تو پاکستان کی سیاست نظریات کے بغیر دکھائی دیتی ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ پاکستان تحریک انصاف کا نظریہ کیا ہے۔ ا س کی خارجہ پالیسی کیا ہے۔ تعلیمی پالیسی کیا ہے۔ کوئی واضح جواب نہیں ملے گا۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کا فلسفہ کیا ہے۔ اس کے سپریم لیڈر ایک عرصے سے باہر ہیں۔ پاکستان پر ابتلائیں ٹوٹ رہی ہیں۔ بین الاقوامی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں۔ کیا انہوں نے کوئی مبسوط پالیسی بیان جاری کیا۔ کوئی تحریر قلمبند کی کوئی کتاب منظر عام پر آئی۔وہ یقینا یہاں کے حالات سے پریشان رہتے ہوں گے۔ انہیں اظہار خیال تو کرنا چاہئے۔ یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے۔ یہ کس قسم کی معیشت چاہتی ہے۔ بین الاقوامی امور پر اس کی کیا واضح پالیسی ہے۔ ان پارٹیوں کا بنیادی مقصد عوام کی رہنمائی ہوتا ہے۔ عوام کے ذہنوں میں موجود الجھنوں کو دور کرنا۔ پاکستان کو اس وقت ایک مضبوط سسٹم کی ضرورت ہے۔ اس سسٹم کے قیام کے لیے کوئی سیاسی یا غیر سیاسی قوت کام نہیں کررہی ہے۔ہمارے سارے پڑوسی ہم سے ناراض ہیں۔ بھارت کشمیر میں ایک سال سے انسانوں کو قید میں رکھے ہے۔ اپنے غاصبانہ قبضے کو آئینی حیثیت دے رہا ہے۔ ہم اس کے لیے ایسی موثر آواز بلند نہیں کرسکے جس سے بھارت خود پر عالمی دبائو محسوس کرتا۔ تاریخ میں ایسی بے شُمار مثالیں ہیں کہ چھوٹے ملکوں نے بڑے ملکوں کی نا انصافیوں پر ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
میں پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کی تیاریوں کی بات اسی لیے کررہا ہوں کہ اس سے نوجوانوں میں ایک جذبہ بیدار ہوگا۔ اپنے علاقے اور ملک کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل بناسکیں گے۔ اور ان دنوں سوشل میڈیا پر جو اِن علاقوں کی شکایات نظر آتی ہیں ان کے دور کرنے کا کوئی راستہ نکلے گا۔ حکومت اگر اس سمت کوئی پیشرفت نہیں کرتی تو ہمارے پرائیویٹ ادارے حرکت میںآسکتے ہیں۔ میڈیا دو سالہ پروگرام تشکیل دے۔ یونیورسٹیاں عوام کو درپیش مسائل کے تجزیے کرکے ان کے حل کی رپورٹیں مرتب کریں۔ ڈائمنڈ جوبلی کی کوکھ سے ان شاء اللہ وہ پاکستان معرض وجود میں آئے گا جس کی آرزو قائداعظم کو تھی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ