آپس میں بہت اتحاد تھا۔ سب باہم شیر و شکر تھے۔
کوئی قدم بھی اٹھاتے۔ پہلے اتفاق رائے حاصل کرتے۔
جائز کمائی کم تھی اس لئے اسے بانٹنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ ناجائز کمائی میں برکت بھی بہت تھی۔سب کی ملی جلی کوششوں سے حاصل ہوتی تھی۔ اس لئے سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے۔ کسی کے مفاد کو نقصان نہیں پہنچتا تھا۔ قومی مفاد طے نہیں ہوا تھا۔ اس لئے وہ کسی کے سامنے نہیں ہوتا تھا۔
شاہی محلّات کے لئے باہر سے قیمتی گاڑیاں منگوائی جاتیں تو کسی کا حق نہیں مارتے تھے۔ باہر سے گاڑیاں بھیجنے والے۔ بحری جہازوں والے۔ کسٹم کلیئرنگ فارورڈنگ والے۔ پٹرول پمپوں والے سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے تھے۔
یہ ان کا ایمان تھا کہ انگریز نے ان کے آباؤ اجداد مغل شہنشاہوں سے حکومت چھینی تھی۔ اب جب انگریز سے بڑی مشکل سے آزادی ملی ہے تو ہم مغل بادشاہوں کے وارث ہیں۔ ویسے ہی محلّات میں رہنا۔ ہمارا پیدائشی حق ہے۔ ایوانِ صدر۔ وزیرا عظم ہاؤس۔ گورنر ہاؤسز ۔ وزیر اعلیٰ ہاؤسز۔ سب شاہانہ طرز تعمیر۔اور ویسی ہی آسائشوں والے ہونے چاہئیں۔ ہم کسی صورت بابر۔ اکبر۔ جہانگیر شاہجہاں کی روحوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتے۔
با ادب۔ با ملاحظہ ہوشیار کی صدائیں تو قصۂ پارینہ ہوچکیں۔ اب ان کی جگہ ۔موٹر سائیکل سوار ہر اوّل دستہ۔ پھر سائرن بجتے ہوئے۔ چالیس پچاس گاڑیاں چلنا چاہئیں۔ تاکہ رعایا کو معلوم ہو کہ شاہی سواری آرہی ہے۔ شہزادے۔ شہزادیاں اگر کسی وقت الگ سے باہر نکلیں تو ان کے آگے کبھی ہٹو بچو کی آوازیں بلند ہونی چاہئیں۔
رعایا بہت ہی ملنسار۔ اطاعت گزار تھی۔ اپنے اولی الامر کے ہر فرمان پر آمناََصدقناََ کہنا جزو ایمان سمجھتی تھی۔ ان کی آنکھوں کے آگے سب جوڑتوڑ ہوتے تھے۔ جسے اہلِ مغرب منی لانڈرنگ کہتے ہیں۔ لیکن یہ اہلِ اسلامی جمہویہ کہتے تھے:
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست
اگر پیسہ ایک ملک سے دوسرے ملک جارہا ہے تو اس میں کیا خرابی ہے۔
علماء بہت پابند شرع تھے۔ دین کے شعائر کی حفاظت کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ کوئی ان کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ وہ کسی کے معمولات میں دخل نہ دیں۔ مفاہمت کی یہ حکمت اتنی مقبول ہوئی کہ سب قبیلوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ کوئی کسی کے معاملے میں مداخلت نہ کرے گا۔ کسی سے نہیں پوچھا جائے گا کہ اتنا پیسہ کہاں سے آیا ہے۔ پارلیمنٹ بھی تھی کیونکہ بیرونی دنیا کا یہ تقاضا تھا۔ اس کی عمارت ۔ کرسیاں۔ میزیں اتنی مہنگی بنوائی گئیں کہ مغل شہنشاہوں کی روح خوش ہوجائے۔ ایک ایک کرسی پر جب ایک معزز منتخب رکن گھومتا تو پارلیمنٹوں کی ماں برٹش پارلیمنٹ کے بینچ بھی ماند پڑ جاتے ۔ لشکریوں۔ واعظوں۔ معالجوں۔ وکیلوں سب کو خود مختاری دی گئی تھی۔ ان کی آمدنی پر پارلیمنٹ میں بات نہیں ہوتی۔
سب کا غیر تحریری مگر متفقہ عزم تھا کہ معیار زندگی بلند ہونا چاہئے۔ خاص طور پر ہندوستان کے مقابلے میں۔ چاہے اس کے لئے باہر سے قرض لینا پڑے اداروں پر ڈاکے ڈالنے پڑیں۔ چند ایک خاندان اس جدو جہد میں بہت آگے نکل گئے کہ امریکہ برطانیہ کے ارب پتی بھی اتنی آسائشیں نہیں رکھتے تھے۔ پبلک خوش ہوتی تھی کہ کچھ گھرانے تو ہیں جو کفار سے زیادہ دولت مند ہیں۔
امرا۔ رؤسا جنہیں اشرافیہ کہا جاتاتھا ان کی بیگمات۔ اولادیں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتی تھیں۔ نیک اور پارسا۔ اپنے مجازی خدائوں کی اتنی تابع کہ کبھی انہیں برے کاموں سے نہیں ٹوکتی تھیں۔ نیکی تو وہ پہلے ہی دریا میں ڈال آتے تھے۔ ان کے سامنے سرکاری عمالی بوریاں بھر بھر کر اشرفیاں لاتے۔ پھر خصوصی ایلچی۔ خاص طیاروں میں لے کر باہر چلے جاتے۔ وہ خوش ہوتیں کہ یہ مال حرام ان کے گھر میں نہیں رکھا گیا۔
اس بستی والے اپنی اپنی روایات۔ ثقافت اقدار کے اتنے گرویدہ اور محافظ کہ دنیا بے شک آگے چلی جائے ترقی کرجائے۔ انسانوں کی زندگی میں کتنی آسانی پیدا ہوجائے۔ مگر وہ ان صدیوں میں رہنا چاہتے تھے۔ جن میں ان کے آباؤ اجداد رہتے تھے۔ وہ اپنی میراث کی حفاظت پر بہت خوش تھے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ نئی صدیوں نے اِدھر آنا ہی چھوڑ دیا۔
غریب لوگوں کو بہت سمجھایا جاتا تھا مگر وہ بچے پیدا کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ ان کو اس کے علاوہ کچھ آتا بھی نہیں تھا۔ ان میں سے بعض کو تو اپنے بچوں کی تعداد اور نام بھی یاد نہیں رہتے تھے۔ وہ خوش تھے کہ ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اکثریت میں ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے جتنی تعداد بڑھتی وہ اسے اپنا کارنامہ خیال کرتے۔
اشرافیہ سمجھ دار تھی۔’’وہ بچے کم پیسے زیادہ کی قائل تھی۔‘‘
ماشاء اللہ۔ اتنے جدت پسند اور نئے نئے خیالات لانے والے کہ ایسی ایسی جگہوں سے بھی کمانے کی گنجائش نکال لیتے کہ ترقی یافتہ دُنیا حیران رہ جاتی۔
اپنے بھائیوں کو آمدنی کے نئے نئے ذرائع بتاتے کہ تمہارے پاس دو گردے ہیں۔ ایک بیچ دو۔ انہیں پیسے دیتے۔ خود بھی کماتے۔ ڈاکٹروں کا بھی ذریعۂ معاش بنتے۔ تازہ تازہ مردوں کے اعضاء بھی نکال لیتے ۔ اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی تھی۔ سب اہل خانہ اس کار خیر میں تعاون کرتے۔
دساور سے گدھوں کی کھال کی ڈیمانڈ آتی تو ان کی کھال کھینچ لیتے۔ کھال برآمد ہوتی۔ گدھے کا گوشت بھی ضائع نہیں کرتے تھے۔ بسم اللہ پڑھ کر اپنے ہم وطنوں کو کھلا دیتے۔ ان سب میں آہستہ آہستہ گدھوں کی بار برداری۔ مار کھانے کے رُجحانات بڑھتے گئے۔
بیمار بھینسوں۔ گائیوں۔ بیلوں۔ کو گھٹ گھٹ کر مرنے نہ دیتے بلکہ ان کو شرعی طور پر ذبح کرکے ان کا آخری وقت آسان کردیتے۔ جب ان کے اپنے ہم شہر یہ گوشت کھاتے تو ڈاکٹروں کا کاروبار چمک اٹھتا۔ پھر ڈاکٹر جلد ہی اپنا ذاتی اسپتال بنالیتا۔ یہ ڈاکٹر اصول کے اتنے پابند تھے کہ مریض چاہے جاں بلب ہو۔ جب تک ایڈوانس نہ ملے اسے ہاتھ بھی نہ لگاتے تھے۔ نقد کے قائل تھے۔ کیونکہ نقد پسند کمرشل نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے میت بھی پورا بل وصول کیے بغیر لواحقین کے حوالے نہیں کرتے تھے۔
پانی کی آزادی پر بھی بند نہیں باندھے۔ خود بھی مادر پدر آزاد تھے۔ اس لئے لاکھوں کیوسک پانی بستیاں تخت و تاراج کرتا۔ سمندر میں گر جاتا۔ یہ بڑے انہماک سے یہ نظارے دیکھتے۔ پھر جب سارا میٹھا پانی کھارے پانی میں مل جاتا تو خوش ہوکر تالیاں بجاتے۔
یہ قوم مسئلوں کی بہت قدر کرتی تھی۔ بلکہ مسئلوں سے عشق کرتی تھی۔ پوری کوشش کرتی کہ یہ حل نہ ہوں۔ مسئلہ کشمیر کو 1948سے ایسے گلے سے لگایا کہ 71سال گزر گئے۔ اسے الگ نہیں ہونے دیا ۔
اپنی الجھنوں خامیوں کا ایسا احساس تھا کہ دن ڈھلتے ہی چالیس پچاس چینلوں پر ایک ایک درویش۔ تین تین دوسرے درویشوں کو ساتھ بٹھاکر ’قصہ چہار درویش‘ شروع کردیتا۔ اتنے خلوص اور جذبے سے بات کرتے کہ مسئلہ پیچھے رہ جاتا۔ درویش آگے نکل جاتے۔ قوم سب کچھ چھوڑ کر پورے خلوص سے ایک ایک لفظ سنتی۔ اورپلے باندھ لیتی۔ اگلی صبح پھر گھر گھر اس پر واہ واہ ہورہی ہوتی۔
جب بھی کوئی نیا بادشاہ آتا تو وہ وہیں سے بات شروع کرتا۔ جب یہ جمہوریہ آزاد ہوئی تھی ۔ آج کل پھر یہ قوم روز اوّل پر پہنچی ہوئی ہے۔ ٹاس جیتا جاچکا ہے۔ میچ شروع ہونے والا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ