ایک بہت ہی کالی بلّی چمکتی آنکھوں کے ساتھ صبح صبح رستہ کاٹ گئی ہے۔
آپ بتائیں کہ میں اپنی راہ چلتا رہا ہوں یا رستہ بدل لوں۔
لوگ تو اچانک اپنا قبلہ بدل لیتے ہیں۔ پھر بڑی ڈھٹائی (یہ لفظ مناسب نہیں، یہ تو چینلوں والے بولتے ہیں) بلکہ بڑے دھڑلے سے ان نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ جن کی وہ ایک رات پہلے تک شد و مد سے مخالفت کرتے تھے۔ کیسے آجاتا ہے یہ ہنر انہیں۔
اس لمحے تو میں سرشار ہوں، اپنی مٹّی کی زرخیزی سے۔ اقبال بار بار یاد آرہے ہیں ’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘۔ اصل مسئلہ ’ذرا نم‘ ہی ہے۔ نم کیلئے ڈیم بنانے کا شعور پیدا کیا جا رہا ہے۔ وہ جو اپنے آپ کو حقیقی عوامی نمائندے کہتے ہیں انہوں نے تو اپنی باریوں میں یا مکمل میعاد میں ڈیم کی بات ہی نہیں کی۔ اب اگر چیف جسٹس اور وزیراعظم ایک ڈیم کیلئے چندہ بھی جمع کر رہے ہیں اور بار بار ہمیں یاد بھی دلا رہے ہیں تو یہ بزعم خود ہمارے قائدین کہہ رہے ہیں، حکومت حقیقی نمائندے ہی چلا سکتے ہیں۔ حکومت چلانا ایک اچھا موضوع ہے۔ اس پر تاریخ اور جغرافیے کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے کہ کون حکومت چلا سکا، کون نہیں۔ ابھی تو مجھے سندھ بوائے اسکاؤٹس آڈیٹوریم کا منظر آپ کے سامنے لانا ہے۔ جہاں سندھ کے دارالحکومت کراچی اور اندرونِ سندھ سے طلبا و طالبات، اساتذہ اور پرنسپل آئے ہوئے ہیں۔ موضوع ہے ’سندھی ادب و ثقافت۔ ماضی، حال، مستقبل‘۔ ان نوجوانوں نے اپنے مضامین مقابلے میں شرکت کیلئے بھجوائے ہیں۔
سندھ کے وزیر تعلیم و ثقافت و سیاحت سید سردار علی شاہ بہت اچھی باتیں کر رہے ہیں۔ قومی زبان اور علاقائی ثقافتوں کے درمیان امتزاج اور قربت پر زور دے رہے ہیں۔ ایسی کوششوں کی تعریف کر رہے ہیں۔ جس میں نوجوانوں کو لکھنے پڑھنے کی طرف راغب کیا جائے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر وزرا۔ سرکاری افسروں کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھیں تو ان کا معیار بہتر اور بحال ہو سکتا ہے۔ شاہ صاحب نے اپنے بچوں کو ایک سرکاری اسکول میں داخلہ دلوایا ہے۔ سندھ کی ممتاز مصنّف نور الہدیٰ شاہ اپنے تجربات اور خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔ نوجوان طلبا و طالبات۔ سب بڑے انہماک سے تقریریں سن رہے ہیں۔ اسمارٹ فون کا استعمال بہت کم ہے۔ عمر کوٹ کی طالبہ کوشلیا کماری نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔
میں اکثر ایسے پروگراموں میں جاتا ہوں تو میڈیا سے پھیلائی ہوئی مایوسی دم توڑتے دیکھتا ہوں۔ ہمارا مستقبل، بیٹے بیٹیاں، تقریر میں بھی آگے ہیں، تحریر میں بھی۔ سوشل اسٹوڈنٹس فورم نے آدم جی گورنمنٹ سائنس کالج میں اقبال کے مصرع ’جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہے زنجیریں‘ پر تقریری مقابلہ کروایا۔ اس میں بھی طالب علموں نے بڑی تعداد میں حصّہ لیا۔
’ذرا نم‘ کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے۔ یہی سب سے بڑا نکتہ ہے۔ میں تو برملا کہتا ہوں کہ اگر اپنے معاشرے میں ہمیں بے راہ روی، اپنی اقدار سے پہلو تہی نظر آتی ہے تو ہماری نسل اس کی ذمہ دار ہے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ٹیکنالوجی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ تو1960 ء کی دہائی سے 1990ء تک معاشی، معاشرتی، صحافتی، علمی، ادبی، سیاسی اُفق پر چھائی رہنے والی نسل نے اس کیلئے کیا تیاری کی۔ پی ٹی وی تو آ چکا تھا ہمیں خبر تھی کہ پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی بہار بھی آنیوالی ہے۔ ہم نے اس کی تیاری کیوں نہیں کی۔ دُنیا سمٹ رہی ہے، جو تبدیلیاں ترقی یافتہ ملکوں میں آچکی ہیں ہمارے ہاں بھی آئیں گی۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان پر سوچ بچار کریں۔ ان کے منفی، مثبت امکانی اثرات کے بارے میں فکر کریں۔ کیا ہم نے یونیورسٹیوں میں یا اپنے میڈیا ہاؤسز میں آنے والی نسل کو زبان و بیان، ٹیکنالوجی کی پہلے سے تربیت دی۔ اب ہم جن اقدار اور تمدّن کے بگڑنے کا رونا رو رہے ہیں ان کے تحفظ کیلئے ہم نے کوئی اسکیمیں بنائیں۔ اب ہم اُردو کے ساتھ جس بدسلوکی کا ذکر کر رہے ہیں یہ چیلنج انگریزی، فرانسیسی، چینی، روسی، عربی، فارسی اور دوسری زبانوں کو بھی درپیش ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے اس کیلئے کیا حفظ ماتقدم کیا۔ نوجوان اگر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ انہیں کتابیں رسالے پڑھنے کا کوئی شوق نہیں تو انہیں یہ لااُبالی پن کس سے ورثے میں ملا ہے۔ نئی نسل ہمیشہ پرانی ہوتی نسل کی کوکھ سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک تسلسل ہے۔ اچانک پیرا شوٹ سے نیچے نہیں اترتی۔ ہم اونچے اونچے منصبوں پر بیٹھ کر ایسے ماتم کرتے ہیں کہ ہم تو مکمل پارسا ہیں۔ فرشتے ہیں۔
واویلا مچ رہا ہے کہ نئی نسل کو اُردو نہیں آتی۔ نئی نسل انگریزی پر فدا ہے تو اُردو سے عدم تحفظ میں مبتلا ہونے کا احساس کس نے پیدا کیا۔ ہماری نسل نے ہی یہ معیار بنایا کہ انگریزی ہی واحد ذریعہ نجات ہے۔ ہماری نسل نے ہی انگریزی میڈیم اسکول کھولے۔ ہماری نسل کے والدین نے ہی یہ کلچر استوار کیا کہ انگلش میڈیم سے ہی اچھی نوکری ملے گی۔ اچھے رشتے مہّیا ہوں گے۔
یہ سارا ماحول پیدا کر کے بچوں بچیوں کو انگریزی کی خوش نما زنجیریں پہناکر ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ اُردو میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیں۔ غالب و میر، چراغ حسن حسرت، ابو الکلام آزاد، کرشن چندر، اے حمید، سعادت حسن منٹو کی نگارشات پر مہارت رکھیں، فارسی شعر یاد آتا ہے
در میان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
دریا کے عین درمیان مجھے ایک تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے۔ پھر کہتے ہو کہ دامن گیلا نہ ہو، ہوشیار، ہوشیار۔
اب بھی یہ طریقِ ملامت اختیار کرنے کے بجائے نئی نسل جن آلات اور مشینوں کو استعمال کر رہی ہے اس میں وہ اخلاقیات، وہ ادبیات عالیہ فراہم کریں جن سے ہم نئی نسل کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے درد مندی چاہئے۔ ایسی کہانیاں دیں جو مزیدار ہوں۔ ایسے اشعار جو ان کے دل سے قریب ہیں۔ اپنی تاریخ کے ایسے واقعات مختصر مختصر جو آج کے ماحول میں رہنمائی کر سکیں۔ خوشی کی بات ہے کہ جنرل (ر) معین الدین حیدر کی یادداشتیں جلد ہی کتابی صورت میں آ رہی ہیں۔ ایک اور اہم کتاب ’پاکستان پیپلز پارٹی کے 50سال‘ سینئر پی پی پی رہنما اقبال یوسف کی بازار میں آچکی ہے۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمیں معلومات اور اطلاع کے یہ تیز رفتار ذرائع میسر نہیں تھے۔ یہ نسل خوش قسمت ہے ہم سے زیادہ باخبر ہے۔ ان کی چیزوں کو سمجھنے اور قدم اٹھانے کی رفتار تیز ہے اور ہماری نسل اور تحقیقی ادارے نتیجہ خیز اقدام کر سکتے ہیں۔ کشتِ ویراں پھر آباد ہو سکتی ہے۔ ہمیں اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کو آج کے جدید ذرائع اطلاعات میں اپنے شعائر اور اپنی اقدار فراہم کرنا ہوں گی۔ اگر پھر سے ابراہیم کا ایمان تازہ ہو تو آگ اندازِ گلستاں پیدا کرسکتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ