ہم اپنے بازوﺅں۔ اپنی زمینوں۔ اپنے سمندر پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے۔ہم اپنے شہروں کو لندن۔ ٹورنٹو۔ لاس اینجلس کیوں نہیں بناسکتے۔ وہ بھی انسانوں نے ہی بنائے ہیں۔یہ زیادہ تر بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے ریٹائر ہونے والے لوگ ہیں جو بڑے بڑے بنگلوں میں اکیلے رہ رہے ہیں سب کو غم ہے کہ ان کے بیٹے امریکہ۔ کینیڈا۔ برطانیہ سے واپس پاکستان آنا ہی نہیں چاہتے۔ ایک دو ہفتے کے لیے آتے ہیں تو ہمیں بھی فکر لاحق رہتی ہے کہ خیریت سے واپس چلے جائیں۔ ہم وہاں باہر ان کے پاس ہوتے ہیں تو انہیں تشویش نہیں ہوتی۔ بیٹے کہتے ہیں۔ یہاں عدم تحفظ کا احساس ہے۔ یہاں کوئی کام بھی ہو آسان یا مشکل۔سرکاری یا غیر سرکاری۔سفارش سے ہوتا ہے۔ کام کرنے والا سمجھتا ہے کہ ہم پر احسان کررہا ہے۔ اپنا فرض نہیں۔ دیار غیر میں یہ سب کام معمول میں ہوجاتے ہیں وہاں سب انہیں اپنی ڈیوٹی خیال کرتے ہیں۔بیٹوں کا کہنا بالکل برحق ہے۔ اب اپنی گلی میں جھاڑو لگوانے کے لیے بھی جمعداروں کو چائے پانی کا خرچہ دینا پڑتا ہے۔ ہماری گلی کے گٹر ایک مہینے سے بھرے ہوئے ہیں۔ گندا پانی۔ پینے کے پانی کے ٹینکوں میں رسنے کا خطرہ ہے۔ کراچی واٹر بورڈ کو آن لائن بھی شکایت درج کرواچکے ہیں۔ مقامی دفتر میں خود جاکر اطلاع دے چکے ہیں۔ ایم ڈی تک بات پہنچائی جاچکی ہے۔ مگر کوئی صاف کرنے نہیں آرہا ہے۔سوال یہی ہے کہ ہم 72سال میں وہ نظام قائم کیوں نہیں کرسکے جہاں ہر کوئی اپنے کام کو ڈیوٹی سمجھے۔ نئے پاکستان میں بھی ایسی کوشش نہیں ہورہی ہے۔ دوسرے ملکوں کی بات چھوڑیں۔ ہم اپنے ہاں دیکھ سکتے ہیں فوج نے اپنے ہاں ایک نظام قائم کرلیا۔ سب کچھ ڈیوٹی سمجھ کر ہوتا ہے۔ اپنی جان بھی ڈیوٹی پر نثار کردیتے ہیں۔ آرمی چیف تین تین سال بعد بدلتے رہتے ہیں۔ ادارہ اپنی جگہ مضبوط رہتا ہے۔ سویلین میں یہ نظام آپ کو موٹروے پر نظر آتا ہے تو ہم باقی محکموں۔ وفاقی۔ صوبائی سیکرٹریٹ۔ بلدیاتی اداروں۔ پولیس میں یہ سسٹم کیوں نہیں لاسکتے۔ یہ تو شکر ہے کہ اب غیر ملکی گوری میموں کے ہمارے نوجوان اتنے دلدادہ نہیں رہے۔ لیکن غیر ملکی تعلیم، غیر ملکی روزگار، غیر ملکی قرضوں سے ہر نسل کو عشق ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں۔ کپڑے۔ جوتے ضرورت کی ہر چیز غیر ملکی پسند ہے۔ ہمارے کارخانے بند ہورہے ہیں۔ ان کی جگہ وسیع و عریض شاپنگ مراکز لے رہے ہیں۔ جہاں ہر ملک کی مصنوعات کھلے عام ملتی ہیں۔ کچھ کی درآمد پر ہم اربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ کچھ اسمگل کی جاتی ہیں۔گزشتہ سال ہماری آمدنی صرف 5.2ٹریلین تھی۔ خرچے 5.9ٹریلین۔ یعنی 700ارب روپے کا خسارہ۔ جس کے لیے قرضے لیے جاتے ہیں۔ تاکہ ملازمین کی تنخواہیں دی جاسکیں۔ ہماری درآمدات برآمدات سے 19بلین ڈالر زیادہ ہیں۔ یہ مہنگی درآمدات وہی غیر ملکی مصنوعات ہیں جس کے امیر غریب سب عاشق ہوگئے ہیں۔ اپنا دودھ دہی۔ کپڑے جوتے۔ برش استعمال نہیں کرتے۔ ہم زرعی لوگ تھے۔ ہ±نر مند تھے۔ اپنا اناج اگاتے تھے۔ دوسروں کو بھی برآمد کرتے تھے۔ لیکن اب ہم صرف گاہک بن گئے ہیں۔
حکومتیں آرہی ہیں جارہی ہیں۔ لیکن کوئی بھی مقامی اخراجات اور بیرونی اخراجات میں توازن قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہے۔ایک عام دکاندار بھی۔ ضرورت پڑتی ہے تو پہلے اپنی تجوری۔ گھر کی الماریوں میں ہاتھ مارتا ہے اپنی مالی استطاعت دیکھتا ہے۔ پھر کسی سے ادھار مانگنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ہمارے وزرائے خزانہ۔ چیف اکنامسٹ۔ وزرائے تجارت۔ اپنے قدرتی وسائل۔ معدنی دولت اور افرادی قوت کا حساب ہی نہیں لگاتے۔ غیر ملکی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو ہی راہ نجات سمجھتے ہیں۔جتنی محنت کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف۔ عالمی بینک۔ ایشیائی ترقیاتی بینک۔ چین۔ سعودی عرب۔ قطر۔ متحدہ عرب امارات سے قرض بمع سود لینے کے لیے کی جاتی ہے کیا اتنی اپنے پہاڑوں۔ ریگ زاروں۔ دریاﺅں۔ سمندروں میں چھ±پے سونے۔ تانبے۔ تیل۔گیس کے حصول کے لیے کی جاتی ہے۔ عمران خان سعودی عرب۔ قطر۔ چین۔ ابو ظہبی جارہے ہیں کیا وہ ریکوڈک گئے۔ سینڈک گئے۔ تھر گئے۔ خاصخیلی گئے۔ سوئی یہاں گم ہوئی ہے ہم اسے ریاض۔واشنگٹن۔ ابو ظہبی۔ بیجنگ میں ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اپنی زرخیز زمینوں۔ معدنی دولت۔ نوجوانوں کی توانائی سے بے خبر رکھ رہے ہیں۔اسکولوں۔ کالجوں۔ یونیورسٹیوں میں کیا ہم مقامی معیشت پڑھاتے ہیں۔ جوانوں کوغیر ممالک کی معیشتوں اور وسائل کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس لیے وہ وہاں جانا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا انہیںقلات۔ پشین۔ شکار پور۔ تھرپارکر۔ صادق آباد۔ بوریوالہ۔ وزیر آباد۔ کلر کہار۔ ہری پور۔ ہزارہ۔ سوات۔ شمالی وزیرستان کی ضلعی معیشت بھی پڑھائی جاتی ہے کہ یہاں کون سی فصلیں پکتی ہیں۔ کونسی گیس ملتی ہے۔ کونسے قیمتی پتھر ہیں۔
پاکستان زرعی ملک ہے۔ اس لیے سب سے زیادہ ضرورت یہاں زرعی سائنسز پڑھانے کی تھی۔ معدنیات تک پہنچنے کے لیے جیالوجی ( ارضیات) کی تدریس کی جاتی۔ ہم صرف ایم بی اے تیار کررہے ہیں۔ جن کی کھپت مارکیٹوں اور بینکوں میں ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی زمین اپنی جڑی بوٹیوں اپنی فصلوں سے دور ہورہے ہیں۔ ہمارا زاویہ نگاہ ہی غلامانہ ہے۔ تحقیق سے ڈرتے ہیں۔ بہاﺅ الدین زکریا یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر نے اپنی کارکردگی بتاتے ہوئے کہا کہ یہاں خالی زمین پر ایک پودا ’کھار‘ بہت ا±گ رہا ہے۔ مقامی لوگ اسے جلاکر اسکی راکھ سے کپڑے دھوتے ہیں۔ میں نے وہ سب صاف کروادیا۔ زندہ قوم کا وی سی ہوتا تو وہ کھار پر تحقیق کرواتا۔ اس سے کپڑے دھونے کا پاﺅڈر تیار کرواتا۔
غیر ملکی امداد اور قرضے ہمیں ذہنی طور پر آزاد ہی نہیں ہونے دے رہے۔ ہماری نسلیں غیر قوموں کو ہی اپنا آئیڈیل سمجھ رہی ہیں۔ غیر ملکی مال کی عادت ڈالی جارہی ہے۔ ہمارا خوبصورت طرزِ تعمیر جسے امریکہ برطانیہ والے دیکھنے آتے تھے اب وہ غائب ہورہا ہے۔ اس کی جگہ بد شکل ڈبے نما عمارتیں لے رہی ہیں۔
ہماری سب سے بڑی دولت 60فیصد نوجوان آبادی ہے۔ اس کی توانائیوں۔ صلاحیتوں کو اپنی مضبوط معیشت میں بروئے کار لانے کے لیے ہم نے کونسی شاہراہ تراشی ہے۔ یہ ایٹمی توانائی سے بھی زیادہ بڑی طاقت ہے۔
خود انحصاری۔ خود کفالت۔ ہماری منزل ہونی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غیر ملکیوں سے تجارت اور اقتصادی رشتہ ختم کردیں۔ بلکہ یہ کہ ہم دوسروں سے لیے گئے قرضے غیر پیداواری اخراجات کی نذر نہ کریں۔ درآمدات ایسی کریں جس سے ہماری زراعت۔ صنعت آگے بڑھیں۔ نیا پاکستان قرضوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ پرانے پاکستان کے قدرتی۔معدنی اور انسانی وسائل کی تحقیق اور بہبود سے ہی تعمیر ہوگا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ