جو لوگ ایمان لائے ہیں۔ ان کا دوست خدا ہے کہ اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں۔ یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرہ۔ آیت 257)
ہم سب سرنگوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ہماری نگاہ کی حد کم ہوتی جارہی ہے
چند خاص لوگ ہیں جو آگے بیٹھے ہیں۔ وہ کسی اور کو آگے نہیں آنے دیتے۔
آگے بیٹھنے والوں کا وژن بھی محدود ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم سرنگوں میں زندگی گزارنے پر بھی خوش ہیں مطمئن ہیں۔
ہر سرنگ کی محدود بصیرت رکھنے والے ہی ہماری رہنمائی کررہے ہیں۔ اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جانے کی کوشش نہیں کرتے۔
ہم اپنی ذہانت استعمال نہیں کرسکتے۔ کیونکہ وہ یرغمال رکھ دی گئی ہے۔
سرنگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
ہم میں سے زیادہ تر لمحۂ موجود کی سرنگ میں رہتے ہیں۔ وقت کے وقت سوچتے ہیں۔ ایڈہاک ازم ہماری سرشت بن چکی ہے۔ سرنگ سے باہر اللہ تعالیٰ کی جو وسیع و عریض کائنات ہے۔ امکانات کے کتنے جہان آباد ہیں۔ ہم ان سے بے خبر رکھے جاتے ہیں۔ ان دنیائوں کو دیکھنے کی آرزو بھی نہیں رکھتے۔ ہماری نظر کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن بھی تنگ ہوتے جارہے ہیں۔ سوچ محدود ہوتی جارہی ہے۔ ہم سے 24 گھنٹے سے زیادہ کے روڈ میپ بھی نہیں بن پاتے۔ سرنگوں سے باہر کی قومیں آئندہ تیس چالیس برس کے لائحہ عمل بنا کر کھلی فضائوں میں مصروفِ عمل رہتی ہیں۔
قبیلوں۔ برادریوں کی سرنگیں ہیں۔ لاکھوں لوگ صدیوں سے ان میں رہ رہے ہیں۔ قبیلے کا سردار تو سرنگ سے باہر نکل بھی سکتا ہے۔ دوسری سرنگوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں بھی کرسکتا ہے۔ لیکن قبیلے کے باقی ارکان کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ کوئی ایسی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے ہمیشہ کے لئے سرنگ کے تاریک ترین حصے میں پابہ زنجیر کردیا جاتا ہے۔
بہت سے فرقے ہیں۔ سب کی الگ الگ سرنگیں ہیں۔ ان کے وابستگان ان سرنگوں میں رہنے پر خود بھی آمادہ ہیں۔ جو نہیں ہیں۔ انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔ اتنی تاریکی ہے کہ وہ اس سے باہر نکلنے کا بھی سوچ نہیں سکتے۔ کسی فرد کو اپنے طور پر سوچنے اور نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے۔ وہ یہ باور کرتے ہیں کہ دنیا صرف ان کے فرقے تک محدود ہے۔ اہل ایمان وہی ہیں۔
ایک سرنگ سیکورٹی کے علمبرداروں نے تعمیر کی ہوئی ہے۔ ان کا محور و مرکز صرف سیکورٹی ہے خاردار تاریں ہیں۔ یہاں صرف اور صرف سیکورٹی کے حوالے سے ہی سوچنا اور کام کرنا پڑتا ہے۔ سارے رہائشیوں سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیکورٹی کے تقاضے کے مطابق دیکھیں۔ گفتگو کریں۔ اس سے بالاتر ہو کر جو بھی سوچتا ہے یا بولتا ہے۔ وہ سیکورٹی رسک بن جاتا ہے۔ سماجی بہبود۔ انسانی حقوق۔ ایک دوسرے کا خیال۔ انسانیت کی اعلیٰ اقدار سب سیکورٹی کی اونچی دیواروں میں محصور کردی جاتی ہیں۔
ایک سرنگ میں بہت اندھیرا ہے۔ باہر علاقائیت کی تختی لگی ہوئی ہے۔ یہاں محور و مرکز اپنا اپنا علاقہ ہے۔ اوّل تو کسی دوسرے علاقوں کی بات ہوتی ہی نہیں ہے۔ اگر ہو بھی تو اپنے علاقے کے تناظر میں۔ کوئی بھی موضوع زیر بحث ہو۔ معیشت۔ صحت۔ تعلیم۔ ٹرانسپورٹ۔ تان اپنے علاقے پر آکر ٹوٹتی ہے۔ دور سرنگ کے آخر میں جو تھوڑی بہت روشنی ہے۔ اس میں بھی ان کو اپنا علاقہ ہی نظر آتا ہے۔
آئیے اب آپ کو ایک اور سرنگ دِکھاتے ہیں۔ اسے لسانی سرنگ کہا جاسکتا ہے۔ ساری سوچیں ساری ذہانت صرف اپنی زبان سے وفاداری تک محدود ہیں۔ زبان جو پیار۔ محبت۔ انسانوں کے درمیان رابطے کا وسیلہ ہے۔ جو عظیم ادب۔ نغمے۔ افسانے تخلیق کرنے کا ذریعہ ہے اسے ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ زبان کے حوالے سے ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ اللہ کے لاکھوں بندے اس سرنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ دل سے یہ باور کرتے ہیں کہ ان کی زبان ہی اوّل و آخر ہے۔ دوسری زبانوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اپنی زبان کو برتر رکھنے کے لئے وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن اپنی زبان میں تحقیق۔ توسیع اور اسے دنیا بھر کے علوم سے مالامال کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ زبان سے اربوں روپے کمانے والے زبان کی ترقی پر کچھ خرچ نہیں کرتے۔ اسے بین الاقوامی زبانوں کے برابر نہیں لے جاتے۔
ایک سرنگ میں صرف یہ نصب العین ہے کہ لڑائی صرف جمہوریت اور آمریت کے درمیان ہے سب کو یہی سمجھایا جاتا ہے کہ ہر تنازع کے فریق صرف جمہوریت اور آمریت ہیں۔ یہ کسی کو سوچنے نہیں دیا جاتا کہ جمہوریت ہے کیا۔ جو کچھ ہورہا ہے کیا وہ جمہوریت ہے۔ جسے جمہوریت کہا جارہا ہے۔ اس سے جمہور کو کوئی فیض مل رہا ہے۔ جسے آمریت کہا جارہا ہے کیا وہ آمریت ہے۔ بات خراب حکمرانی اور اچھی حکمرانی کی ہو۔ اس پر بھی جمہوریت اور آمریت کے ٹھپّے لگا دیئے جاتے ہیں۔ کوئی اپنے حقوق کی بات کرے۔ پینے کے صاف پانی کا مطالبہ کرے۔ روزگار کے حصول کے لئے احتجاج کرے۔ اپنے شہداء کے خون کا حساب مانگے۔ کرپشن کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔ تو کہا جاتا ہے جمہوریت خطرے میں ہے۔ یہ سب آمریت مسلط کرنے کی سازش ہے۔
ایک سرنگ میں بڑے بڑے دانشور باتیں کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ مختلف مقامات پر تین تین۔ چار چار کی ٹولیاں بیٹھی ہیں۔ وہ دنیا بھر کے مسائل کا حل اپنی باتوں سے کرنا چاہتے ہیں۔ برسوں گزر گئے ہیں۔ مگر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے۔ وہ خود بھی کبھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے ہیں۔ چند لوگ ہیں جو ہر اہم موضوع پر بولتے ہیں بولتے رہتے ہیں۔
ایک سرنگ سی پیک کے نام پر بن رہی ہے۔ یہاں بھی کسی کو پتہ نہیں ہے کہ یہ غیر ملکی کن شرائط کن اصولوں پر بڑھتے جارہے ہیں۔ ہمیں پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ باہر کی روشنی اور ہمارے درمیان دیوارِ چین اٹھائی جارہی ہے۔
سرنگیں تو جنگی قیدیوں کے بھاگنے کے لئے ہوتی تھیں۔ سرنگیں دشمن کی ہلاکت کے لئے ہوتی ہیں یا دشوار گزار راستے کم کرنے کے لئے پہاڑوں۔ سمندروں کے نیچے بنائی جاتی ہیں۔ سرنگیں کبھی بھی مستقل رہائش کے لئے نہیں ہوتی ہیں۔لیکن ہم اپنی بقا ان سرنگوں میں رہنے ہی میں سمجھتے ہیں۔ ہم دنیا سے کٹ رہے ہیں۔ ہم اپنوں سے الگ ہورہے ہیں مگر سرنگ سے باہر نہیں نکلتے۔
ہر سرنگ کے آخر میں روشنی جھلملاتی ہے۔ دعوتِ نظارہ دیتی ہے۔ سرنگ سے باہر نکلیں۔ جہاں امکانات اور روشنیوں سے بھری دنیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بے شمار نعمتیں سجا رکھی ہیں۔ زمین آسمان تسخیر کریں۔ قبیلوں۔ برادریوں۔ فرقوں۔ زبانوں۔ سیکورٹی کی زنجیریں توڑ دیں۔ انسانیت کی اعلیٰ اقدار کو فروغ دیں۔ عالمگیر معاشرے میں اپنا مقام بنائیں۔سرنگوں سے باہر نکلیں گے تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔
ہمیں TUNNEL VISION کو خیر باد کہنا ہوگا۔ آپ کا کیا خیال ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ