کیسا شخص تھا رات بھر جاگتا تھا اور دن کو تو سب جاگتے ہیں اس لئے وہ بھی جاگتا تھا کب سوتا تھا یہ آج تک سوالیہ نشان ہے۔نہ ایم پی اے تھا نہ ایم این اے تھا اس کے باوجود سینکڑوں نوجوانوں کو ملازمت پر رکھوایا۔ سڑکوں پر پیدل پھرتا تھا لیکن ایک عدد سائیکل اس کی ملکیت تھا جسے چوری کے ڈر سے ہر وقت ساتھ لئے پھرتا تھا۔
اس شخص سے 30 سال میری دوستی رہی لیکن ہمیشہ اسے سائیکل کے سہارے چلتے ہی دیکھا حسرت ہی رہی کہ اسے سائیکل پر سوار ی کرتے دیکھوں۔ خالی جیب گھر سے نکلتا اور خالی جیب ہی گھر داخل ہوتا۔ اس شخص نے اپنی پوری زندگی میں شاید ہی چند لمحات اپنی مرضی سے گزارے ہوں۔ صبح سورج طلوع ہوتے وقت گھر داخل ہوتا اور ساتھ ہی ضرورت مند افراد اسے ساتھ لے جانے کیلئے پہنچ جاتے، جو پہلے پہنچا اسے لے گیا پھر پورا دن وہ لوگوں کے کاموں کے سلسلے میں دفاتر کے چکر لگاتا اور کاموں سے فارغ ہو کر بابا ہوٹل چوک نواں شہر یا کسی ہیئر کٹنگ سیلون پر بسیرا کرتا۔موبائل فون تو تھے نہیں لیکن ضرورت مندوں کو اس شخص کے بیٹھک کے اڈے معلوم تھے جس کے سبب کبھی کسی کو اس مسیحا تک رسائی میں مشکل پیش نہ آتی تھی ۔اس شخص کو اپنے کام کیلئے ساتھ لے جانے والے افراد کو پختہ یقین ہوتا تھا کہ ان کا کام یقیناً ہو جائے گا۔
سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھنے والا یہ شخص ملک بشیر اعوان افسران اور ارکان اسمبلی کی انکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوتا تھا۔
ملک بشیر اعوان کے والد ملک حیات اعوان معروف ٹیلر ماسٹر تھے۔حسین آ گاہی میں حیات ٹیلرز کے نام سے ان کی دکان تھی۔ انہوں نے بی اے کیا پھر ایل ایل بی کیا۔معروف سٹوڈنٹ لیڈر تھےاور دبنگ سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے وائٹ ہاؤس ملتان میں ملک بشیر اعوان مرحوم کے مطالبہ پر بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ اسی طرح کئی عوامی مطالبات تسلیم کروانے میں ان کا بہت عمل دخل ہے۔ وہ عملاً عوامی لیڈر تھے جن کے کپڑے کسی ہیئر کٹنگ سیلون اور جوتے کسی موچی کی دکان پر پڑے ہوتے تھے۔کسی ریڑھی والے سے روٹی اور چنے کھاتے ۔حمام پر نہاتے کپڑے پہنتے اور موچی کی دکان سے پالش شدہ جوتا پہن کر کسی ضرورت مند کے ساتھ نکل پڑتے۔وہ اپنے محلے ٹبی شیر خان سے کونسلر بنے، ڈویلپمنٹ کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ دوسری بار کونسلر منتخب ہوئے اور ڈپٹی میئر چنے گئے۔ جب وہ ڈپٹی میئر تھے تو موجودہ وزیر مملکت ملک عامر ڈوگر کے والد سابق سینیٹر ملک صلاح الدین ڈوگر مرحوم اس وقت میئرملتان تھے۔ملک صلاح الدین ڈوگر مرحوم سرکاری دورے پر بیرون ملک گئے تو میئر کا چارج ملک بشیر اعوان مرحوم کو ملا۔انہوں نے میونسپل کارپوریشن ملتان کے 350 عارضی ملازمین کو مستقل کر دیا۔برسوں سےبھرتی یہ عارضی ملازمین کیلئے اس سے بڑا کوئی تحفہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ڈپٹی میئر ملک بشیر اعوان کے اس اقدام سے میئر ملتان ملک صلاح الدین ڈوگر کچھ عرصہ نالاں بھی رہے۔ مرحوم نے ہمیشہ غریب کی مدد کی ۔اپنے تو کوئی ذرائع آمدن نہ تھے امرا سے لیتے اور ضرورت مندوں میں بانٹ دیتے اور خود ہمیشہ خالی جیب جبکہ بہت سے طلبہ کی فیسیں ادا کرتے اور امتحانی داخلے بھرتے تھے۔
80 کی دہائی سے پہلے ان کا زیادہ وقت گھنٹہ گھر حسین آگاہی بوہڑ گیٹ گزرتا تھا۔گیلانی لا کالج کے الیکشن میں وہ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر قمر الزماں بٹ کی مخالفت کر رہے تھےلیکن قمرالزمان بٹ گیلانی لا کالج کی صدارت کا الیکشن جیت گئے تو کامیابی کے جلوس کے ہمراہ نواں شہر آئے اور زندگی کے باقی عرصہ کا زیادہ وقت نواں شہر کے بابا ہوٹل فردوس ہیئر کٹنگ سیلون ملتان آٹوز کے ساتھ ایک سیلون اور تاج ہوٹل میں گزارا۔ قبل ازیں وہ رات کو ٹانگہ اڈہ بوہڑ گیٹ پر باعلم شخص صاحب علی گردیزی مرحوم کی محفل میں بیٹھا کرتے تھے۔صاحب علی گردیزی مرحوم کو تاریخ پر عبور حاصل تھا۔ملک بشیر اعوان رات کے پچھلے پہر اس محفل سے اٹھتے اور چوک گھنٹہ گھر میں برگر کی ریڑھی کے سامنے رکھے بنچ پر لیٹے رہتے۔
میرا ملک بشیر اعوان سے بہت کھلا مذاق تھا میں نے پوچھا کہ سائیکل ہاتھ میں لے کے پھرتے ہو کیا یہ آپ کے سوار ہونے پر بدکتا ہے تو کہنے لگے کہ کتے پڑ جاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ پھر سائیکل کو گھر رکھ دو تو کہنے لگے سائیکل ہاتھ میں ہو تو کتوں کے خلاف ڈھال کا کام کرتاہے۔ یہ ان کی منطق تھی جس پر وہ بضد تھے۔میں انہیں اکثر کہتا کہ شادی کر لو تو کہتے جب شادی کرنے کا وقت تھا تو شادی بارے سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا۔اب میں یتیم بچے پیدا نہیں کرنا چاہتا۔اور پھر ایک شام مجھے سابق ضلع ناظم پیر ریاض قریشی کا فون آیا کہ ملک بشیر اعوان اب اس دنیا میں نہیں رہا۔یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری کیونکہ ایک گھنٹہ قبل تاج ہوٹل چوک نواں شہر میں ہم محو گفتگو تھےاور کچھ پرانی یادیں شیئر کر رہے تھے۔
اگلے روز جنازہ تھا اور پورا شہر امڈ آیا تھا۔ساری عمر پیدل چلنے والے کے جنازہ میں تمام ارکان اسمبلی وزرا شہر کی تمام اہم شخصیات شامل تھیں۔ جی پی او کا گراؤنڈ بھر کر سامنے کی سڑک بھی جنازگاہ بنی ہوئی تھی۔ ہاتھ میں سائیکل تھام کر چلنے والے کے جنازہ کے شرکا کی کاریں ڈیرہ اڈہ چوک سے حسن پروانہ روڈ پر پارک تھیں۔سابق ضلع ناظم پیر ریاض حسین قریشی نے بتایا کہ انہوں نے ملک بشیر اعوان کو تاج ہوٹل سے لیا اور ملک صلاح الدین ڈوگر کو ملنے جا رہے تھے۔راستے لطیفہ سنا رہا تھا۔کوئی ریسپانس نہ آنے پر جو ملک بشیر اعوان کی طرف دیکھا تو ان کا سر ڈھلکا ہوا تھا وہ انہیں فوری نشتر ہسپتال لے گئے لیکن عوام کے پیارے اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔مرحوم کے جنازہ میں، میں نے غیروں کو دھاڑیں مار کر روتے دیکھا۔میں نے آج تک مرحوم کے سوا اتنا ہر دلعزیز سفید پوش نہیں دیکھا جس نے اپنے ڈھنگ سے زندگی بسر کی اور کسی کو تکلیف دیئے بغیر اگلے جہان کی راہ لی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت میں اعلی مقام دے۔
( بشکریہ : روزنامہ بدلتا زمانہ )
فیس بک کمینٹ