”اکرم قریشی شخصیت و فن “ تحقیق کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتی ہے اور اس کا ادراک ہر صاحب فن اور محقق کو ہے۔ مذکورہ تحقیقی کتاب میں تحقیق کے تمام اصول سامنے رکھے گئے ہیں ۔ ۔!
تحقیق کا اصول ہے کہ جس قلمکار پر لکھا جائے اس کے فن و شخصیت کے تمام تر حوالے دیے جائیں ورنہ تحقیق ادھوری قرار پاتی ہے ۔ کتاب میں اکرم قریشی کے کوائف اور ان کا خاندانی پس منظر بھی شامل کیا گیا ہے ۔ اکرم قریشی نے سرائیکی اور اردو ادب میں جس تنقیدی معیار کی بنیاد رکھی اس کی کڑواہٹ ادبی حلقوں میں واضح انداز میں محسوس ہونے لگی ۔ اس تنقید سے کافی شعراء نالاں نظر آنے لگے کیونکہ اکرم قریشی کا انداز بیاں دو ٹوک تھا وہ آئینہ دکھاتے تھے اور آئینے میں چہرے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ آئینہ سچ ہی بولتا ہے ۔ چنانچہ اکرم قریشی کی تنقید اور ان کا فن معتبر اور مستند ہے ۔ جس کی فرید ساجد لغاری نے پیروی کی ۔ ”اکرم قریشی شخصیت و فن “176 صفحات پانچ ابواب پر مشتمل کتاب ہے۔ مصنف نے پہلے باب میں اکرم قریشی کا خاندانی پس منظر کوائف ، منظوم حالات بیان کئے ہیں ۔ دوسرے باب میں ان کے علمی و ادبی کارنامے اور خدمات کا احاطہ کیا گیا ۔ چوتھا باب اکرم قریشی کے فکر و فن پر ہے ۔ چوتھے باب میں اکرم قریشی کی شاعری کا بھی حوالہ ہے جبکہ پانچویں باب میں شعرائے کرام اور اہل سخن کا منظوم خراج عقیدت شامل کیا گیا ۔ آخر میں حوالہ جاتی کتب بھی درج کی گئیں ۔ ” اکرم قریشی شخصیت و فن“ ادبی تنظیم ”دامان ادبی سرائیکی سنگت “ نے شائع کی ۔ کتاب پر ڈاکٹر علمدار حسین بخاری ،جاوید احسن خان اور مولانا منظور آفاقی کی تاثراتی تحریریں شامل ہیں۔ معروف ادیب جاوید احسن خان لکھتے ہیں کتاب میں قریشی مرحوم کی تنقیدی استعداد اور تجزیاتی صلاحیتوں کا بھر پور احاطہ کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب اس خطے کی اہم شخصیت کے فن اور شخصیت کا بھر پور احاطہ کرتی ہے ۔
فیس بک کمینٹ