ابھی موٹر وے پر بچوں کے سامنے ماں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے زخم کی پوری طرح مرہم پٹی نہیں ہوئی تھی کہ شیخوپورہ میں ایک اوربھیانک وادات نے بحیثیت قوم ہمیں سر جھکانے پر مجبور کر دیا ہے اور بحیثیت مسلمان پوری امت مسلمہ کو۔پولیس کے مطابق سڑک پر بس خراب ہونے کی وجہ سے دوسری بس کی منتظر خاتون کو 6 افراد نے لفٹ دینے کے بہانے اجتماعی زیادتی کانشانہ بنایا ۔ملزمان نے نشہ آور چیز پلا کر اس سے زیادتی کی اور پھرلڑکی کو فصلوں میں پھینک کر چلے گئے ۔
انتہائی سنگین سزاؤں کے باوجودخواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات دنیا بھر میں ہوتے رہتےہیں مگر خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے جتنے کیسز پاکستان میں ہورہے ہیں ،اتنے دوسرے ممالک میں نہیں ہوتے۔ان کی نہ کوئی نفسیاتی توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے نہ کوئی معاشرتی ۔پاکستان میں عورت کوئی ایسا شجر ممنوعہ نہیں جس تک مرد کی رسائی ممکن نہ ہو۔پھر یہ جرم کیوں بڑھتا جارہا ہے؟ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ریپ کے مرتکب افراد میں کسی کا جسمانی یا نفسیاتی دکھ محسوس کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے، وہ تقریباً بیماری کی حد تک خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں مگراجتماعی زیادتی کامعاملہ اس انداز میں بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔یہ تو سراسر درندگی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ درندے ہم کونسی فیکٹریوں میں تیار کررہے ہیں۔ معاشرے میں کونسی ایسی خرابی ہے کہ مرد پستی کی اس آخری سطح پر جا گرتا ہے ۔
حکومت کو اس سلسلے میں کیا کرنا چاہئے؟ کیاانتہائی سخت سزائیں اس جرم کو روک سکتی ہیں؟ بھارت میں بارہ سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرم کو سزائے موت دی جا سکتی ہے مگروہاں بھی یہ جرم رکا نہیں ۔ابھی چند دن پہلے بھارت کے شہر پرتاپ گڑھ میں ایک شادی شدہ خاتون کرائے کا مکان تلاش کر رہی تھی، ایک دکاندار نے اسے رات کو 9 بجے مکان دکھانے کیلئے بلایا۔ خاتون جب مکان دیکھنے پہنچی تو دکاندار نے اپنے 2 ساتھیوں کی مدد سے اسے دبوچ لیا اور ایک سنسان گھر میں لے گیا۔وہاں تینوں دوستوں نے مل کر خاتون کی اجتماعی عصمت دری کی اور فرار ہوگئے۔یورپ اور امریکہ میں ریپ کے مجرموں کوعمر قید کی سزا بھی دی جاتی ہے مگر ابھی تک یہ جرم وہاں بھی کم نہیں ہوا۔موٹر وے پر اجتماعی زیادتی والے واقعہ پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا۔’’شہریوں کو تحفظ اور انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا منشور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جہاں دن ہو یا رات، خواتین ،بچے اکیلے ہوں یا اپنےخاندان کے ساتھ، وہ خود کو محفوظ سمجھیں۔موٹروے کیس میں ہر صورت انصاف ہوگا اور متاثرہ خاتون کےساتھ ظلم کرنے والوں کو سخت سزا بھگتنا ہو گی۔‘‘سوال وہی ہے کہ کیا مجرموں کو سخت سزائیں ملنے کے بعد یہ جرم رک جائے گا ۔کیا جہاں جہاں اس جرم میں انتہائی سخت سزائیں دی جارہی ہیں وہاں یہ جرم کم ہوا ہے؟ اگر وہاں کم نہیں ہوا تو یہاں کیسے ہوگا۔آئیے دیکھتے ہیں کہ کس معاشرے میں یہ جرم بہت کم ہے ۔بے شک عرب ممالک میں یہ جرم بہت کم ہے ،اجتماعی زیادتی کے واقعات وہاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی شاید دووجوہات ہیں ۔ایک تو یہ کہ وہاں زیادہ شادیاں کرنے کا رواج ہے، دوسراوہاں کےلوگ معاشی طور پر خاصے مستحکم ہیں مگر معاشی طور پر تو یورپ اور امریکہ میں بھی لوگ غریب نہیں ۔وہاں یہ جرم نہیں رکا۔ایک شخص نے کہا کہ ’’اس جرم میں اضافہ اس وقت سےہوا ہے جب ہم نے لاہور کا بازار حسن بند کردیا،جب تک یہ قائم تھا ،ایسے لوگ اسی گٹر میں گرتے رہتے تھے اور معاشرہ محفوظ رہتا تھا۔ معاشرہ سے گندگی نکالنے کیلئے نالیوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔‘‘
پولیس نے گزشتہ روزدعویٰ کیا ہے کہ اوکاڑہ کے نواحی گاؤں صالحووال میں دوران ڈکیتی خاتون سے اجتماعی زیادتی کرنیوالا ڈاکو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گیا ہے ۔یہ پولیس مقابلہ اصلی تھا یا جعلی ،یہ ایک الگ بحث ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا عدالتی نظام ایسے مجرموں کو فوری سزادلانے کے قابل ہے یا نہیں ۔میرے خیال میں اگر نظام اس قابل ہوتا توجرائم میں کمی آ چکی ہوتی ۔اوکاڑہ میں ڈکیتی کی واردات میں شامل جن 4ڈاکوئوں نے خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔انہیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا۔اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب نے جڑانوالہ روڈ پر لڑکی سے مبینہ اجتماعی زیادتی کا فوری طور پرنوٹس لیا۔آر پی او شیخوپورہ سے رپورٹ طلب کرلی۔ ملزمان کی جلد گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے روزانہ کی سطح پر رپورٹ دینے کی ہدایت کی۔مگر ابھی موٹر وے زیادتی والا کیس کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ اگرچہ عمران خان نے موٹر وے سانحہ کے بعد نیشنل ایمر جنسی ہیلپ لائن قائم کرنے کا اعلان کیا۔انہوں نے پی ایم ڈلیوری یونٹ کو یہ ٹاسک سونپ دیا کہ نیشنل ایمر جنسی ہیلپ لائن کے لیے الگ نظام تشکیل دیا جائے گا کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں پورے ملک کے لیے ایک ایمرجنسی ہیلپ لائن نمبر ہوگا ۔یہ ایک اچھا فیصلہ ہے ۔ پولیس جرم ہونے پر پہلے سے ذرا جلدی جائے وقوعہ پر پہنچ جائے گی مگر یہ سوال وہیں کھڑا ہے کہ جرم کوکیسے روکا جائے؟پولیس کے پاس تو پولیس مقابلوں کے سوا اسے روکنے کا کوئی حل نہیں ۔جن کی کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا۔میرے خیال میں جب تک عدالتی نظام اورپولیس کے نظام میں عوام کو شریک نہیں کیا جائے گا۔ جرائم میں کمی نہیں آسکتی ۔ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے جج بنانے کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی کئی سوالیہ نشان ہیں۔ اس میں بھی تبدیلی ناگزیر ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ