گلبرگ کی مین مارکیٹ کے ایک فلیٹ میں محفل گرم ہے۔ شہر کا کون ادیب اور کون آرٹسٹ ایسا ہے جو اس محفل میں موجود نہیں ہے۔ ایک طرف صلاح الدین محمود، محمد کاظم، محمد خالد اختر، رشید ملک اور کولن ڈیوڈ بیٹھے ہیں، تو دوسری طرف کشور ناہید، اکرام اللہ اور محترمہ شہر زاد عالم رونق افروز ہیں۔ یہاں ہر ذرہ آفتاب ہے۔ صلاح الدین محمود اپنی طرز اور اپنے اسلوب کے منفرد شاعر ہی نہیں بلکہ اپنی چال ڈھال، اپنے اٹھنے بیٹھنے، اپنے بولنے اور اپنے پڑھنے میں بھی انفرادی خصوصیت رکھتے ہیں۔ محمد کاظم عربی ادب، عربی زبان اور انگریزی اور اردو ادب کے بے بدل عالم اور ادیب ہیں۔ محمد خالد اختر افسانے، ناول اور مزاح نگاری میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ فیض صاحب ان کے ناول ’’چاکیواڑہ میں وصال‘‘ پر ایسے فریفتہ ہیں کہ اس پر فلم بنانے کی باتیں کرتے ہیں۔ رشید ملک موسیقی اور قدیم ہندوستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ موسیقی اور قدیم ہندوستان پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ پاکستان میں شاید وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے یہ لکھ کو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو حیران کر دیا ہے کہ آریہ کوئی نسل نہیں ہے بلکہ یہ عزت اور احترام سے کسی شخص کو مخاطب کر نے کا اسلوب ہے۔ انہوں نے امیر خسرو اور طبلے کی ایجاد پر بھی کتاب لکھی ہے۔ ان کے خیال میں امیر خسرونے طبلہ ایجاد نہیں کیا۔ کولن ڈیوڈ نامور مصور ہیں اور اپنے خاص انداز کی پینٹنگ بنانے میں پاکستان اور پاکستان سے باہر اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ کشور ناہید کو ہم سب جانتے ہیں۔ دبنگ شاعرہ ہیں، بے باک نثر نگار ہیں۔ انہوں نے ’’بری عورت کی کتھا‘‘ لکھ کر سب کو چونکا دیا ہے۔ اکرام اللہ افسانہ نگار اور ناول نویس ہیں۔ ان کے ناول ’’گرگ شب‘‘ پر ضیاء الحق کے دور میں پابندی لگائی جا چکی ہے۔ یہ ناول انسانی رشتوں کی وہ پرتیں کھولتا ہے جنہیں ہم سات پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شہر زاد عالم ’’سفال ساز‘‘ ہیں۔ مٹی سے کھیلتی ہیں اور اس مٹی سے نادر و نایاب فن پارے تخلیق کرتی ہیں۔ لیکن صرف یہی تخلیق کار تو اس محفل کی رونق نہیں بڑھاتے، یہاں تو انجینئر اور تعمیرات کے ماہر بھی آتے ہیں کہ ان فنون کو بھی آرٹ کے زمرے میں ہی شامل کیا جاتا ہے۔ یہ محفل گرم ہوتی ہے تو مکالمہ بحث و تمحیص میں بدل جاتا ہے۔ آوازیں بلند ہو جاتی ہیں مگر ادب آداب سب پر حاوی رہتا ہے۔
یہ محفل سجانے والا کون ہے؟ یہ کس کا فلیٹ ہے؟ یہ فلیٹ ہاشم خاں کا ہے۔ اور ہرشام بپا ہونے والی یہ محفل اسی کی ذہنی اختراع ہے۔ وہ خود ادیب، شاعر اور مصور نہیں ہے لیکن ان فنون لطیفہ پر بے شمار ادیبوں، شاعروں اور مصوروں سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ وہ انجینئر ہے اور وہ بھی ایسا انجینئر جس نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں رول آف آنر حا صل کیا ہے۔ وہ کتابوں کا رسیا ہے۔ سائنس فکشن پر تو شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جو اس نے نہ پڑھ ڈالی ہو۔ اردو اور انگریزی کا باقی ادب بھی جیسے اس نے گھول کر پی لیا ہو۔ موسیقی مشرق کی ہو یا مغرب کی وہ دونوں سے برابر کا حظ اٹھاتا ہے۔ ابھی آڈیو، ویڈیو کیسٹ اور سی ڈیز کا زمانہ نہیں آیا ہے۔ ابھی گراموفون ریکارڈ یا ٹیپ اسپول ہی چل رہے ہیں۔ اس نے اپنے زمانے کے تمام مشرقی اور مغربی موسیقاروں کے گانے اسپول پر ریکارڈ کر رکھے ہیں۔ محفل میں جب ادب، تاریخ اور فنون لطیفہ پر گرما گرم بحث ختم ہوتی ہے تو موسیقی شروع ہو جاتی ہے۔ ظ۔ انصاری نے تازہ تازہ امیر خسرو کے گیت، ملہار اور کہہ مکرنیاں لانگ پلے ریکارڈ میں محفوظ کر دی ہیں۔ ہندوستان کے نامور گانے والوں اور گانے والیوں نے انہیں اپنی شیریں آواز سے نکھارا ہے۔ ہاشم خاں نے یہ ریکارڈ حاصل کیا ہے۔ اور محفل میں سنا کر سب پر وجد طاری کر دیا ہے۔ پروین سلطانہ نئی نئی ہندوستان کی موسیقی میں وارد ہوئی ہے۔ ہاشم خاں کی محفل میں اس کی سریلی آواز بھی گونجنے لگی ہے۔ لیکن یہ وجد صرف مشرقی موسیقی سے ہی تو طاری نہیں ہوتا، امریکہ کی کنٹری میوزک بھی تو محفل پر جادو کرتی ہے۔ امریکہ کی کنٹری میوزک اور گانے والی جون بائز۔ ایسا لگتا ہے جیسے محفل میں موجود سننے والے خود بھی جون بائز کے ساتھ واشنگٹن کی سڑکوں پر ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
اور پھر یہ محفلیں اجڑ جاتی ہیں۔ اچانک؟ جی ہاں بالکل ہی اچانک۔ یہ محفلیں سالہا سال جگمگاتی رہی ہیں؟ مگر پھر انہیں نظر لگ جاتی ہے۔ یہ نظر ان محفلوں کو ہی نہیں لگتی بلکہ ہاشم خاں کو ہی نظر لگ جاتی ہے۔ یا تو یہ شان تھی کہ اس فلیٹ کے دو تین کمروں میں ہاشم خاں کا دفتر تھا۔ اس دفتر میں ایک سیکرٹری کام کرتی تھی اور اس کے ساتھ کئی افراد کا عملہ تھا۔ اور اب یہ حال ہے کہ وہ دفتر بھائیں بھائیں کر رہا ہے۔ فلیٹ خالی ہو گیا ہے۔ ہاشم خاں کبھی ایک گھر میں اور کبھی دوسرے گھر میں جگہ بناتا پھر رہا ہے۔ آخری وقت میں نیر علی دادا اس کا سہارا بنتے ہیں۔ وہ اسے کام دلاتے ہیں۔ اب یہ بتانے کا موقع نہیں ہے کہ ہاشم خاں اور اس کی محفلوں کو کس کی نظر لگی؟ اور کیسے لگی؟ بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ یہ سب اس کا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ اور پھر ہاشم خاں کی صحت گرتی چلی جا تی ہے۔ اور جو ہونا تھا وہی ہوتا ہے۔ آ خر، وہ یہ دنیا ہی چھوڑ جاتا ہے۔ اس سے پہلے صلاح الدین محمود، خالد اختر، محمد کاظم، رشید ملک اور کولن ڈیوڈ ہمیں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ اب ہاشم خاں کی باری ہے۔ وہ بھی چلا گیا۔ وہ جو ہنگاموں میں زندگی کرتا رہا تھا، خاموشی سے چلا گیا۔ لیکن المیہ تو یہ ہے کہ ہاشم خاں نے موت کو خود ہی دعوت دی ہے۔ پہلے ہم ہاشم خاں کی محفلوں کو یاد کرتے تھے اب ہاشم خاں بھی ہماری یادوں کا حصہ بن گیا ہے۔ یوں تو ادھر ادھر محفلیں اب بھی ہوتی ہیں، فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے اب بھی کہیں نہ کہیں اکٹھے ہوتے ہیں، نیر علی دادا ہر مہینے نیرنگ گیلری میں صاحب ذوق افراد کو جمع کر لیتے ہیں۔ جمعرات کی جمعرات ایرج مبارک بھی چند دوستوں کو اپنے گھر بلا لیتے ہیں۔ مگر ہاشم خاں کی محفلوں کا کچھ اور ہی رنگ ڈھنگ تھا۔ اس کے بعد وہ رنگ ڈھنگ کسی اور محفل کو نصیب نہیں ہوا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ