جنوبی پنجاب کا صوبہ بنتا ہے یا نہیں، لیکن بہاولپور، خاص طور سے ریاست ِ بہاولپور کے حوالے سے ایک ناول ضرور سامنے آ گیا ہے۔ نام ہے اس کا ”ادھ ادھورے لوگ“۔ اور لکھنے والے ہیں محمد حفیظ خاں۔ سرائیکی اور اردو کے نامور ناول نگار۔ یہ ناول پہلے سرائیکی میں لکھا گیا تھا، لیکن زیادہ سے زیادہ پڑھنے والوں تک پہنچانے کے لیے اس کا اردو تر جمہ کیا گیا ہے۔ ترجمہ بھی حفیظ خاں نے خود ہی کیا ہے۔ اسی لئے ناول کی زبان میں اردو کے ساتھ سرائیکی زبان کی چاشنی بھی موجود ہے۔ ناول کیا ہے، نوحہ ہے اس شناخت کا جو سیاسی تاریخ نے اس علاقے سے چھین لی۔ اس صورت حال کو ناول کا مرکزی کردار اس طرح بیان کرتا ہے ”میں ایک بار احمد پور اور ڈیرہ نواب جا?ں گا ضرور۔ صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ خطے کی تاریخ کیسے بدلتی ہے اور جغرافیہ کیونکر ساتھ چلنے سے انکار کر دیتا ہے“۔ بہاولپور متحدہ ہندوستان کی بڑی ریاستوں میں ایک ریاست تھی۔ بڑی حد تک خودمختار ریاست۔ اپنی تاریخ، اپنا جغرافیہ، اپنی ثقافت، اپنی زبان، اپنا رہن سہن اور اپنا مزاج۔ اس ناول کے مطابق اس ریاست کی تاریخ، جغرافیے، اور ثقافت پر پہلا حملہ تو اس وقت ہوتا ہے جب نواب صاحب پوری ریاست کی زمینوں پر پنجاب کے آبادکار لا بٹھاتے ہیں۔ پھر جب آزادی کی سن گن شروع ہوتی ہے تو صرف یہ مسئلہ ہی سر نہیں اٹھاتا کہ ریاست پاکستان میں شامل ہو گی یا ہندوستان میں بلکہ ہندو مسلم چپقلش کے ساتھ سماجی ڈھانچہ بھی بدلنے لگتا ہے۔ اس سے پہلے ریاست میں ہندو مسلم تفریق موجود نہیں تھی۔ ہندو حکیم ایک مسلمان نوجوان کو اپنا جانشیں بناتا ہے۔ اس پر اتنا بھروسہ کرتا ہے کہ جب ہندو مسلم جھگڑے شروع ہوتے ہیں اور اسے ہندوستان فرار ہونا پڑتا ہے تو وہ اپنی دکان اس مسلمان شاگرد کے نام کر جاتا ہے۔ لیکن جب برصغیر ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم ہوتا ہے تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانے والے لوٹ مار ہی نہیں کرتے بلکہ قتل وخون بھی شروع کر دیتے ہیں بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ لوٹ مار کے لیے ہی قتل و خون کیا جاتا ہے۔ یوں تو یہ المیہ صرف بہاولپور کا ہی نہیں ہے بلکہ پورے برصغیر کا ہے، لیکن چونکہ یہ ناول تقسیم کے وقت ریاست بہاولپور کے حالات کا ہی احاطہ کرتا ہے، اس لئے ہم اسے بہاولپور کے ا?ئینے میں ہی دیکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے تقسیم اور فسادات پر لکھے جانے والے افسانوں اور ناولوں میں یہ پہلا ناول ہے جس میں، تقسیم کے وقت ریاست بہاولپور میں پیش آنے والے حالات کی تصویر کشی کی گئی ہے اور ناو ل کے مطابق ریاست کی شناخت پر آخری حملہ اس وقت ہوتا ہے جب ریاست پنجاب میں ضم کر دی جا تی ہے۔
اب آپ آج کی صورت حال میں اس ناول اور اس ناول کی کہانی پر غور کیجئے۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کی تحریک تو اب برسوں پرانی ہو چکی ہے۔ جن لوگوں نے یہ تحریک شروع کی تھی وہ کب کے مر کھپ گئے۔ وہ اپنے خواب کی تعبیر نہیں دیکھ سکے۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ سرائیکی صوبہ بنانے کے وعدے سب نے کیے لیکن یہ وعدے وفا نہیں ہو سکے۔ جب سرائیکی صوبے کے حوالے سے کہا گیا کہ سرائیکی زبان تو ملتان، ڈیرہ غازی خاں اور بہاولپور کے علاوہ میانوالی اور ڈیرہ اسمٰعیل خاں میں بھی بولی جاتی ہے بلکہ سندھ کے بعض علاقوں میں بھی یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے، تو سرائیکی صوبے کے بجائے اس کا نام صوبہ جنوبی پنجاب رکھ دیا گیا۔ عمران خان کی حکومت اس عہد کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے کہ وہ ہر حالت میں جنوبی پنجاب کا صوبہ بنائے گی۔ اس کی پہلی اینٹ یہ رکھی گئی ہے کہ اس علاقے کو پہلے اس کا سیکرٹریٹ دیا جا رہا ہے اور وہاں صوبائی کابینہ کا اجلاس کیا جا رہا ہے۔ لیکن کیا اس سے جنوبی پنجاب کا صوبہ قائم ہو جائے گا؟ یہ بڑا ٹیڑھا سوال ہے۔ اس کے لیے آپ کو پھر حفیظ خاں کے ناول کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ بہاولپور کے سرائیکی بولنے والے اپنی ریاستی شناخت کا نوحہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنی ریاست یا ریاستی علاقے کی بحالی کے لیے اپنا الگ تشخص برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ کم سے کم حفیظ خاں کا ناول تو یہی کہتا ہے مگر حفیظ خاں کا ناول یہ بھی کہتا ہے کہ اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں ناول کا مرکزی کردار آخرکار اسی مٹی میں مل جاتا ہے جس مٹی سے اس کا خمیر اٹھا تھا اور ناول اس طرح ختم ہوتا ہے ” آدھے گھنٹے بعد آندھی رکی تو گڑھے والی جگہ پر نئے سرے سے ریت کا نیا ٹیلہ وجود میں آ چکا تھا۔ کوئی نہ جان سکا کہ دوسرے ادھ ادھورے لوگوں کی مانند اپنی اور اپنی دھرتی کی شناخت کے متلاشی فیاض کی تلاش کا سفر صرف یہیں تک تھا یا یہیں سے آغاز ہو رہا تھا؟“ یہ آخری جملہ خاصا معنی خیز ہے۔ اس جملے کو اور خود اس ناول کو آپ جنوبی صوبہ کے قیام کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ