آ پ تولین سنگھ کو جانتے ہیں؟ وہ مرحوم سلمان تاثیر کی بیوی رہ چکی ہیں۔ ہندوستان میں رہتی ہیں اور وہاں کے اخباروں میں مضامین لکھتی ہیں۔ ان کا ایک بیٹا بھی ہے‘ آتش تاثیر، وہ ناول لکھتا ہے۔ اب یہ ان کی شادی اور طلاق کی وجہ ہے یا کوئی اور بات کہ ان کے قلم سے پاکستان کے حق میں کبھی خیر کا کلمہ نہیں نکلتا۔ وہ ہمیشہ پاکستان کے خلاف ہی لکھتی ہیں۔ میں ان کے مضامین اور ان کے وہ ٹویٹ غور سے پڑھتا ہوں جو وہ قریب قریب ہر روز ہی کرتی رہتی ہیں۔ کل‘ پرسوں انہوں نے جو ٹویٹ کیا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کے ان صحافیوں اور ان سیاسی تجزیہ کاروں سے سخت ناراض ہیں‘ جو نریندر مودی کے جنگی جنون کے مقابلے میں، امن و آشتی کی فضا پیدا کرنے کے لیے پاکستانی موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے ان اصحاب سے سوال کیا ہے کہ وہ ہندوستانی وزیر اعظم کی بات سنتے ہیں یا پاکستانی وزیر اعظم کی؟ کس بات پر انہوں نے یہ سوال کیا ہے؟ وہ مجھے معلوم نہیں‘ لیکن اس طرح انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ ان کے اپنے ملک میں ایسا طبقہ موجود ہے جو اس خطے میں امن و امان کا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ ہمارے میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کو سوچنا ہو گا کہ ہم ہندوستان کے اس امن پسند طبقے کو کیسے تقویت پہنچا سکتے ہیں؟
اب میں اس موضوع کی طرف آتا ہوں جس کا حوالہ میں نے اپنے پچھلے کالم میں دیا تھا، لیکن حالات کی نزاکت کی وجہ سے اس پر لکھ نہیں سکا تھا۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کو سات سال ہو گئے۔ اس سال ساتواں جشن منایا گیا۔ جشن منانے والوں کو سات سال میں جس اکھاڑ پچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا، یہ انہی کی ہمت اور اپنے مشن کے ساتھ ان کی لگن ہی ہے کہ یہ جشن کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ ان سات برسوں میں حالت یہ تھی کہ یہ جشن کبھی الحمرا میں ہو رہا ہے‘ تو کبھی ایک ہوٹل میں اور کبھی دوسرے ہوٹل میں۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں اس کے پروگرام بھی متاثر ہوئے۔ حتیٰ کہ ایک سال تو پورے ایک دن کے پروگرام ہی ختم کر دیے گئے تھے۔ شکر ہے، اب یہ جشن الحمرا میں واپس آ گیا ہے۔ لیکن یہ جشن جس کا پورا نام لاہور لٹریری فیسٹیول ہے، لاہور سے باہر لندن اور نیو یارک بھی پہنچ گیا ہے۔ یعنی پاکستانی ادب اور ثقافت نے اس فیسٹیول کے ذریعے دوسرے ملکوں میں بھی اپنے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں۔ اس سال بھی اس جشن میںادب، ثقافت، سیاست اور تاریخ جیسے ہر موضوع پر اجلاس ہوئے‘ اور پاکستانی اور غیر ملکی مہمانوں نے کھل کر گفتگو کی۔ کھل کر میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ ادب کے جشن ہی ہوتے ہیں‘ جہاں کسی خوف و خطر کے بغیر ہر بات کی جا سکتی ہے۔ حمید ہارون نے اس جشن کے افتتاحی اجلاس میں زیریں سطح پر موجود جس ان دیکھے اور ان سنے سینسر کی بات کی، وہ سینسر ادبی جشن کے کسی اجلاس میں بھی نظر نہیں آیا۔ اب وہ پاکستان کے اپنے معاشرے کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات ہوں یا عالمی سطح پر دوسرے ملکوں کے حالات، اس جشن میں سب کی چیر پھاڑ کر دی جاتی ہے۔ عائشہ جلال اور حمید ہارون کے درمیان ”تاریخ اور آزادہ روی‘‘ کے موضوع پر جو بات چیت ہوئی اس نے ثابت کیا کہ ہم بطور قوم اپنی تاریخ سے ڈرتے ہیں۔ ہم اسی خوف سے اپنے بچوں کو اصل تاریخ نہیں پڑھاتے‘ بلکہ وہ داستانیں اور وہ کہانیاں پڑھاتے ہیں جن کا اصل تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسی بات چیت میں یہ سوال بھی سامنے آیا کہ ہمارے بچوں میں تنقیدی ذہن کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ہمارے بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ حالانکہ سوال کرنے سے ہی علم پیدا ہوتا ہے۔ عائشہ جلال نے اس سوال کا وہی جواب دیا جو ہمارے سوجھ بو جھ رکھنے والے حلقے قیام پاکستان سے اب تک دیتے چلے آ رہے ہیں۔ ہمارے بچے پڑھتے نہیں، رٹا لگاتے ہیں۔ اور رٹا لگانے والا کبھی تخلیقی اور تنقیدی ذہن پیدا نہیں کر سکتا۔ ہمارے اساتذہ کرام کے لیے بھی سہولت اسی میں رہتی ہے کہ جن نوٹس کی بنیاد پر وہ سالہا سال سے پڑھاتے چلے آ رہے ہیں‘ وہی پڑھاتے رہیں۔ خیر یہ تو ایک موضوع تھا جس پر کھل کر گفتگو ہوئی۔ لیکن وہاں تو بات چیت کے لیے ایران اور شام کی صورت حال، کشمیر کا المیہ، تارکین وطن کے مسائل اور اس قسم کے دوسرے معاملات بھی زیر بحث آئے۔ مرزا وحید کشمیری ہیں‘ بلکہ مقبوضہ کشمیر کے رہنے والے ہیں۔ آج کل انگلستان میں رہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سماجی اور سیاسی زندگی پر ناول لکھ چکے ہیں۔ ان کا نیا ناول بھی اسی موضوع پر ہے۔ عائشہ جلال ایک مؤرخ کے طور پر کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ ان کے نزدیک پہلا کام مقبوضہ کشمیر سے ہندوستانی فوج کی واپسی ہے۔ میں نے عرض کیا ناں کہ یہ جشن موقع فراہم کرتے ہیں ان تمام مسائل پر بات چیت کا جو ہمارے اپنے معاشرے اور عالمی طور پر ہمارے ارد گرد کے ملکوں اور معاشروں کو در پیش ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہاں ادب اور ثقافت کے شعبوں میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں‘ ان کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ مدیحہ گوہر اور شاہد محمود ندیم ”اجوکا‘‘ کے زیر اہتمام جو ڈرامے سٹیج کرتے رہے ہیں ان ڈراموں نے پاکستانی معاشرے پر کوئی مثبت اثر ڈالا ہے یا نہیں؟ اسی طرح شیما کرمانی مختلف حوالوں سے جو رقص پیش کرتی ہیں‘ انہوں نے شعوری یا غیر شعوری سطح پر ہمارے معاشرے کو متاثر کیا ہے یا نہیں؟ شاہد ندیم اور شیما کرمانی کے جواب اثبات میں تھے۔ جی ہاں، متاثر کیا ہے۔ تنگ نظری، شدت پسندی اور فرقہ بندی جس تیزی سے ہمارے معاشرے میں بڑھ رہی ہے اس کا مقابلہ ان ڈراموں اور اس رقص نے ہی تو کیا ہے۔ اس میں آپ آج کے ادب کو بھی شامل کر لیجئے۔ اگر آج ہمارے معاشرے میں روشن خیالی، مذہبی رواداری اور تکثیریت کی تھوڑی بہت روشن شمعیں نظر آتی ہیں تو اس کی وجہ یہ ثقافتی اور ادبی شعبے ہی تو ہیں۔ آپ ذرا سوچیے، اگر یہ شعبے رجعتی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے نہ ہو جاتے تو آج ہمارے معاشرے کی حالت کیا ہوتی؟ اصغر ندیم سید اور سرمد کھوسٹ کے درمیان مکالمہ ہو رہا تھا کہ زبان کا مسئلہ سامنے آ گیا۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے پہلے تو اپنا تعارف کرایا کہ میرا تعلق ایک ٹی وی چینل سے ہے۔ پھر کہا کہ ہمارے ہاں یونیورسٹیوں کے ابلاغ عامہ کے شعبوں سے جو لڑکیاں لڑکے آتے ہیں‘ انہیں نہ تو صحیح اردو آتی ہے‘ نہ انگریزی۔ یہاں پھر مسئلہ ہمارے تعلیمی نظام کا تھا۔ اس جشن کے بارے میں شکایت یہ کی جاتی ہے کہ اس میں انگریزی کو فوقیت دی جاتی ہے، اردو یا پاکستان کی دوسری زبانوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی بات آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور تازہ تازہ پیدا ہونے والے ادب فیسٹیول کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ یہاں میں ان جشنوں کی وکالت نہیں کر رہا ہوں‘ لیکن یہ سوال ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ اپنی بات دوسرے ملکوں تک بھی پہنچانا چاہتے ہوں تو پھر آپ کس زبان کا سہارا لیں گے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ادب، ثقافت، سیاست اور دیگر معاشی اور معاشرتی موضوعات پر اب پاکستان میں بھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ اور بہت وقیع لکھا جا رہا ہے۔ آپ ادب کو ہی لے لیجیے۔ انگریزی میں لکھے جانے والے کتنے ہی ناول اب تک ہمارے سامنے آ چکے ہیں۔ ان لکھنے والوں کو تو جانے دیجئے جو بہت مشہور ہو چکے ہیں۔ ہر سال نئے لکھنے والے اور لکھنے والیاں بھی اس میدان میں اپنے قدم جما رہی ہیں۔ ان جشنوں کی بات کرتے ہوئے ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ یہ جشن ہمارے معاشرے کے اس طبقے کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جسے بالائی متوسط طبقہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ طبقہ انگریزی سکولوں کا پڑھا ہوا ہے۔ یہ طبقہ ان جشنوں سے بہت کچھ سیکھ کر جاتا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں اردو ادب اور ادیبوں کے بارے میں جو چار پانچ پروگرام ہوتے ہیں، یہ انگریزیاں بولنے والا طبقہ ان سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھ ہی لیتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ