جی ہاں، بچے ادیب بن گئے۔ اور انہیں بیس بیس ہزار روپے انعام بھی مل گیا۔ یہ انعام ملا پروین شاکر ٹرسٹ کے ادب میلے میں۔
اب ان ننھے منے بچوں کے نام بھی پڑھ لیجئے۔ یہ ہیں عیشل شوکت محمود، ان کی کہانی کا عنوان ہے ”وھیل چیئر والی بچی کی ڈائری‘‘۔ یہ ہیں اسما فاطمہ۔ ان کی کہانی کا عنوان ہے ”میں نظر نہیں آ رہی ہوں‘‘۔ یہ ہیں عظمیٰ علی۔ ان کی کہانی ہے ”پھولوں کا پیغام‘‘۔ یہ ہیں محمد حسان سعید۔ ان کی کہانی ہے ”پرنس‘‘۔ اور یہ ہیں ہادیہ اکرم۔ ان کی کہانی ہے ”جن ٹوائے باکس مانگتا ہے‘‘۔ ان بچوں کے نام ہم نے اس لئے لکھے کہ بڑے لکھنے والے تو کسی نہ کسی طرح ہمارے سامنے رہتے ہیں لیکن یہ ننھے منے لکھنے والے ہیں۔ ان کے نام ہم نہیں جانتے۔ یہ تخلیقی ادب کے وہ اکھوے ہیں جو پھوٹ کر ہرا بھرا پیڑ بننے والے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی زیادہ ضروری ہے۔ ان بچوں کی کہانیوں میں آپ کو ان کا بچپن ہی نظر نہیں آ ئے گا بلکہ آپ اپنا بچپن بھی یاد کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بچے انسانی زندگی کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ دوسروں کے دکھ درد اور دوسروں کی خوشیاں کیسے محسوس کرتے ہیں۔ یہ بچے اپنی کہانیاں سنا رہے تھے اور ہم خوش ہو رہے تھے کہ یہ چھوٹے چھوٹے ادیب بالکل صحیح تلفظ اور آواز کے مکمل اتار چڑھائو کے ساتھ کیسے اپنی چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ کہا تو جاتا ہے کہ ایک چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا۔ مگر قصہ یہ ہے کہ اگر تخلیقی اپج موجود ہو تو ایک چنا بھی بھاڑ پھوڑ سکتا ہے۔ اور مظہرالاسلام کے پاس یہ تخلیقی اپج کچھ زیادہ ہی موجود ہے۔ جب وہ پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سر براہ تھے تو اس وقت انہوں نے ایسے نئے نویلے کام شروع کئے تھے۔ سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے کو انعام دینا۔ ایسے طالب علم کو انعام دینا جس نے نو عمری میں ہی بڑے بڑے ادیبوں کو پڑھ ڈالا ہو۔ یہ انعام یونہی نہیں دے دیا جاتا تھا‘ بلکہ اس طالب علم سے سوال کئے جاتے تھے کہ تم نے کسے پڑھا؟ کیسے پڑھا؟ اور اسے کیسا پایا؟ پھر مظہرالاسلام نیشنل بک فاؤنڈیشن سے سبک دوش ہو گئے اور یہ انعام بھی بند ہو گئے۔ اب انہیں پروین شاکر ٹرسٹ کے ادب میلے میں اپنے تخلیقی ہنر آزمانے کا موقع ملا ہے۔ محترمہ پروین قادرآغا اس ٹرسٹ کی سربراہ ہیں۔ اور ان کی معاون ہیں رعنا سیرت۔ یہ پچھلے چالیس چوالیس سال سے اس ٹرسٹ کے ذریعے ادب اور ادیبوں کی خدمت کر رہی ہیں۔ ظاہر ہے ادب اور ادیبوں کی خدمت اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہیں کہ ان کی تخلیقات کی پذیرائی کی جائے اور انہیں انعام دیئے جائیں۔ یہ انعام ہر سال دیئے جاتے ہیں۔ اس انعام کا نام ہے ”عکس خوشبو ایوارڈ‘‘۔ اس سال فکشن کا ایوارڈ ڈاکٹر محمد اویس قرنی کے افسانوی مجموعے ”اگلی بار‘‘ پر، اور شاعری کا ایوارڈ زاہد محمود زاہد کے مجموعے ”گرفت عکس‘‘ پر دیا گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا کالم پڑھنے والوں کے لیے یہ نئے نام ہوں گے لیکن ان کی خوبی تو یہی ہے کہ نئے لکھنے والوں کی پذیرائی کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ گولڈ میڈل حاصل کر نے والی طالبات کو بھی انعام دیا گیا۔ ادبی انعام دینے کی روایت رائٹرز گلڈ کے زمانے میں پڑی۔ پہلا انعام ”آدم جی ایوارڈ‘‘ تھا۔ اس کے بعد یہ انعام بڑھتے ہی چلے گئے۔ سال کی بہترین کتابوں پر یا پھر کمال فن پر اکادمی ادبیات پاکستان کے انعام کو تو ہم سرکاری انعام کہہ سکتے ہیں‘ لیکن مختلف نجی اداروں کی طرف سے جو انعام دیئے جاتے ہیں اب ان کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے اہتمام میں جو سالانہ جشن ادب ہوتا تھا، خدا جانے اسے کس کی نظر لگ گئی کہ ادھر امینہ سید اس ادارے سے رخصت ہوئیں اور ادھر اس جشن کی رونقیں بھی ماند پڑ گئیں۔ اس سال یہ جشن منایا گیا لیکن ایک تو وہ صرف کراچی تک محدود رہا، اسلام آباد نہیں آیا، دوسرے وہ انگریزی لکھنے والوں کی نذر ہو گیا۔ امینہ سید اور آصف فرخی نے کراچی کے گو رنر ہاؤس میں اپنا ادب فیسٹیول منایا لیکن وہ گورنر ہائوس کی نذر ہو گیا۔ اب ہم نہیں جانتے کہ ان میلوں میں ادب اور ادیبوں کے لئے کوئی انعام بھی تھے یا نہیں؟ ہم تک ایسی کوئی خبر نہیں پہنچی۔ ہمیں تو اتنا یاد ہے کہ یونائٹیڈ بینک ہر سال اردو اور انگریزی کے ادب پر جو انعام دیتا ہے وہ پوری توانائی کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ یہاں بچوں کے ادب پر بھی انعام دیا جاتا ہے اور ہاں، کچھ انعام ایسے بھی تو ہیں جو کچھ عرصے نظر آئے، پھر غائب ہو گئے۔ ہماری افسانہ نگار خاتون فرحت پروین نے ”احمد ندیم قاسمی انعام‘‘ شروع کیا تھا مگر شاید وہ دو سال ہی چلا؛ البتہ اب عطاء الحق قاسمی انعام کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔ دیکھیے یہ کب تک چلتا ہے۔ اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ ادیب کا اصل انعام تو یہی ہے کہ اس کی تخلیقات کو تنقیدی ذہن رکھنے والے قاری مل جائیں۔ مالی فائدہ تو ثانوی حیثیت رکھتا ہے لیکن صا حب، ادیب کے پیٹ بھی لگا ہوتا ہے اور اس کے بیوی بچے بھی ہوتے ہیں۔ کتاب کی اشاعت سے تو اسے کچھ نہیں ملتا۔ یہ ایوارڈ یا انعام ہی اس کی جیب تھوڑی بہت بھاری کر دیتے ہیں اور پھر یہ انعام اس کا حوصلہ بھی بڑھاتے ہیں ۔
اب پھر پروین شاکر ادب میلے کی بات بھی ہو جائے۔ جان لیجئے کہ جہاں عارفہ سیدہ ہوں وہاں کسی اور کا چراغ نہیں جل سکتا۔ اللہ رے طلاقت لسانی، سارا میلہ وہی لوٹ لیتی ہیں اسی لیے اب ہر ادبی جشن کا کلیدی خطبہ انہی کا ہوتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ وہ بول کے ادب پیدا کرتی ہیں۔ ہمار ے ہاں لکھنے والے بہت ہیں۔ ایک آدھ ایسا بھی تو ہونا چاہیے جو صرف بول کر ادب پیدا کرے۔ اس ادب میلے میں جہاں کتابوں پر باتیں ہوئیں، وہاں لکھنے اور پڑھنے والوں سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ آپ اپنے پسندیدہ ناول کا کیا کردار بننا پسند کریں گے۔ یہ نئی بات تھی۔ اور پھر وہاں قوی خاں بھی تو موجود تھے۔ انہوں نے ایک ناول کے کردار کو جیتی جاگتی شکل میں پیش کیا۔ خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب افسانہ نگاروں سے اپنی تخلیقات سنانے کو کہا گیا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہر لکھنے والا اپنی تخلیق سنانے کے لیے بیتاب رہتا ہے۔ اور وہاں جائے تنگ است و مردماں بسیار والا معاملہ تھا۔ ایک خاتون لکھنے والی تو روٹھ کر چلی گئیں۔ یہی حال ٹوسٹلجیا کا تھا۔ آپ کا کتابیں پڑھنے کا سنہری دور کب تھا؟ اب اللہ دے اور بندہ لے۔ ہر ایک اپنے بچپن سے بڑھاپے تک کا سفر سنانے پر مصر تھا لیکن میاں رضا ربانی کے افسانوی مجموعے پر اچھی بات ہو گئی۔ یہ افسانے پہلے انگریزی میں Invisible People کے نام سے چھپے تھے۔ اب ” اوجھل لوگ‘‘ کے نام سے ان کا اردو ترجمہ چھپا ہے۔ انگریزی مجموعہ چھپا تو ہم نے یہ کہہ کر اس کا خیر مقدم کیا تھا کہ خدا کا شکر ہے‘ ہمارے ایک سیاست دان کو بھی افسانہ لکھنے کی توفیق ہوئی اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ سیاست دانوں کو زبردستی فکشن پڑھوانا چاہیے کیونکہ یہ افسانے اور ناول ہی ہیں جو انسان کو انسان بناتے ہیں۔ انہیں ادب آداب سکھاتے ہیں۔ میاں رضا ربانی تو خوش قسمتی سے پہلے ہی خاصے مہذب اور ثقہ سیاست دان ہیں، لیکن باقی سیاست دانوں کو ادب پڑھانا نہایت ضروری ہے۔ خاص طور سے ہم آج جس قسم کی سیاست بھگت رہے ہیں‘ اس میں تو نہ ادب آداب کی کوئی قدر رہ گئی ہے اور نہ زبان و بیان کی۔ ایسے میں میاں رضا ربانی کی یہ کاوش ہمارے سیاست دانوں کو ایک نیا راستہ دکھاتی ہے۔ ہماری آج کی سیاست اور سیاسی صورت حال کس قعر مذلت میں جا گری ہے؟ اب اس کا حال بھی پڑھ لیجئے۔ رضا ربانی کی کتاب کی ایک تقریب لندن میں بھی ہوئی۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ ایک نہیں تھے تو پاکستانی ہائی کمیشن والے۔ میاں رضا ربانی کو تو اس کا خیال تک نہ آیا‘ لیکن دوسرے دن ہائی کمیشن کے ایک صاحب نہایت شرمندگی کے ساتھ یہ بتانے آئے کہ ”ہم تو آنا چاہتے تھے‘ مگر ڈر لگا کہ ہماری موجودہ حکومت کیا کہے گی‘‘۔ بس، اس سے ہماری آج کی صورت حال کا اندازہ لگا لیجئے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ