مبارک ہو۔ عمران خاں کی خواہش پوری ہو گئی۔ نریندر مودی جی پھر جیت گئے۔ اور اس بار بڑے طمطراق سے جیتے ہیں۔ اور پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو گئے ہیں۔ اب خدا کرے عمران خاں کی یہ خواہش بھی پوری ہو جائے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہو جائیں۔ اور آپس میں تجارت شروع ہو جائے۔ سشما سوراج پہلے ہی شاہ محمود قریشی کو مٹھائی کھلا چکی ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ مٹھائی اس خوشی میں کھلائی تھی کہ انہیں الیکشن جیتنے کا یقین تھا، یا پھر واقعی وہ دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتی تھیں؟ بہرحال ہماری تو دلی خواہش ہے کہ دونوں پڑوسی پھر امن اور شانتی کے راستے پر چل پڑیں۔ سارک کا پلیٹ فارم ایک بار پھر دوستی اور بھائی چارے کے لیے استعمال ہونے لگے۔ لیکن ایک شبہ اور ایک خوف ہے جو ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے۔ اور یہ شک و شبہ اور یہ خوف اس خطے کی حالیہ تاریخ نے پیدا کیا ہے۔ ہمارے ہاں ہندوستان کے الیکشن پر جو تبصرے ہو رہے ہیں، ہم پوری توجہ کے ساتھ ان کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں سوشل میڈیا پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے ہماری اصل توجہ کا مرکز وہ ہے۔ اور یہ یاد رکھیے کہ سوشل میڈیا پر یہ تبصرے وہاں کے مسلمان ہی نہیں کر رہے بلکہ روشن خیال اور تکثیریت پسند جمہوری روایات پر ایمان رکھنے والے ہندو بھی یہی کچھ لکھ رہے ہیں۔ وہاں کے مشہور و معروف صحافی شیکھر گپتا نے یوگندر یادو کا یہ قول نقل کیا ہے ”مودی کا الیکشن ہندوستانی جمہوریت کے تاریک دور کا آغاز ہو سکتا ہے‘‘۔ اور پھر ابھی الیکشن کے نتیجے پوری طرح آئے نہیں تھے کہ کسی نے کیفی اعظمی کے یہ شعر نقل کیے:
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
لیکن اس پر کسی کا تبصرہ آیا ”مشکل‘ اور شاید کبھی نہیں‘‘۔ پھر کسی نے لکھا:
جل بھی چکے پروانے، ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
مگر کسی نے نظیر اکبر آبادی کا جو شعر نقل کیا ہے وہ سب پر بھاری ہے۔ شعر ہے:
ہم کیوں نہ اپنے آپ کو رو لیویں جیتے جی
اے دوست کون پھر کرے ماتم فقیر کا
ایک صاحب نے لکھا”اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں‘‘ اور ایک صاحب نے ہندی کی ایک طویل نظم بھیجی ہے۔ نظم کے شاعر نے کہا ہے کہ ہندوستان میں جو کچھ ہوا اس میں ہم شامل نہیں تھے۔ اب ہم ہندی کی وہ نظم لکھ کر آپ کو مزید بیزار نہیں کرنا چاہتے۔ ہم نے تو اب تک جو لکھا ہے اس کا مقصد محض یہ عرض کرنا ہے کہ ہندوستان کے الیکشن میں جو ہوا وہ اچھا نہیں ہوا۔ اب مودی جی کو ہندتوا کا نامکمل ایجنڈا مکمل کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اور یہ وہ ایجنڈا ہے جس کا اعادہ ہندو قوم پرستی کے نام پر بار بار کیا جاتا رہا ہے۔ اگر کسی کو یہ خوش گمانی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے ساتھ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بھی ختم ہو جائیں گے یا کسی طرح کشمیر کا مسئلہ حل کرنے مدد میں ملے گی تو یہ خوش گمانی ہی نہیں خام خیالی بھی ہو گی۔ اب تو اگر کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی برقرار رہ جائے تو بہت بڑی بات ہو گی۔ کیونکہ یہ بھی مودی جی کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اب بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا راستہ بھی کھل جائے گا۔ مودی جی نے ہندو انتہاپسندی کا جو جن بوتل سے باہر نکال دیا ہے اب اس سے جان چھڑانا ان کے لیے مشکل ہو گا۔
ظاہر ہے یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا ۔ آزادی کے بعد سے ہندوستان میں (اور پاکستان میں بھی) نئی نسلوں کو جو پڑھایا گیا ہے‘ اور ایک دوسرے کے خلاف جو نفرت پروان چڑھائی گئی ہے اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ دونوں جانب قوم پرستی کے نام پر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا۔ ہندوستان میں اگر تاریخ پر کام کرنے والے کمیشن سے رومیلا تھاپر جیسی لبرل اور روشن خیال مؤرخ کو نکالا گیا تو پاکستان میں منشی پریم چند جیسے افسانہ نگاروں کے افسانے سینسر کئے گئے۔ حتیٰ کہ افسانوں کے ہندو نام تک تبدیل کر دئیے گئے۔ دونوں ہی ملکوں میں بائیں بازو کی ترقی پسند جماعتیں دیوار کے ساتھ لگتی چلی گئیں۔ پچھلے دنوں ہم نے بڑے فخر سے کلکتے کا ذکر کیا تھا۔ اور اس خوشی کااظہار کیا تھا کہ مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت اور جیوتی باسو جیسے بائیں بازو کے رہنمائوں نے کیسا روشن خیال اور روادار معاشرہ قائم کر رکھا تھا۔ مگر پھر اسی مغربی بنگال میں اس کمیونسٹ پارٹی کا کیا حشر ہوا؟ یہ جاننے کے لیے اسی الیکشن کے دنوں کی یہ خبر پڑھ لیجئے ”ہندو انتہا پسندوں کا جلوس نعرے لگاتا ہوا جب بنگال کمیونسٹ پارٹی کے صدر دفتر کے سامنے سے گزرا تو وہاں دفتر میں ایک آ دمی بھی موجود نہیں تھا۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ ہندوستان میں پاکستان کے خلاف نفرت مسلمانوں کے خلاف نفرت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ وہاں کے مسلمان شک کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے جھگڑے میں ہندوستان کے مسلمان مارے جاتے ہیں۔ وہ چکی کے دو پاٹوں کے بیچ آ گئے ہیں۔ ٹھیک ہے رام پور جیسے پٹھانوں کے شہر سے بی جے پی کی امیدوار جیہ پرادا کے مقابلے میں اعظم خاں کامیاب ہو گئے ہیں اور بھی اکا دکا مسلمان ادھر ادھر سے کامیاب ہوئے ہیں لیکن بیس کروڑ مسلمانوں میں سے یہ چند دانے ہندوستانی سیاست پر کیا اثر ڈال سکتے ہیں؟ یہ آپ خود ہی سوچ لیجئے۔ کہا جاتا ہے اس میں قصور ہندوستانی مسلمانوں کا اپنا بھی ہے۔ انہوں نے کبھی ترقی پسند اور لبرل طبقوں کا ساتھ نہیں دیا۔ انہوں نے اپنی قیادت ہمیشہ مولویوں کے ہاتھ میں رکھی۔ کسی بھی حکومت نے جب مسلمانوں کے کسی مسئلے پر بات کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں نے مولانا حضرات کو آ گے بڑھا دیا۔ پاکستان نے ایوب خاں کے زمانے میں عائلی قوانین بنا کر وراثت اور شادیوں کے مسئلے حل کر دئیے تھے۔ ہندوستان میں شاہ بانو کیس پوری برادری کے منہ پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ آج بھی وہاں مسلمان تین طلاقوں پر بحث کر رہے ہیں۔ پرسنل لا کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس الیکشن کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟ جی تو یہی چاہتا ہے کہ اچھے دنوں کی امید رکھی جائے لیکن موسم کے تیور کچھ اچھے نظر نہیں آتے۔ اور یہ تاثر سوشل میڈیا پر چلنے والے تبصروں کی بنیاد پر ہی پیدا ہوا ہے۔ ہندوستان کے ہی ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ”ہمیں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے‘‘ پاکستان اگر رجائیت پسندی کا مظاہرہ کر رہا ہے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اور ہاں، اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ نریندر مودی جی جب وزیر اعظم کا حلف اٹھائیں گے تو کیا وہ عمران خاں کو بھی اس میں شر کت کی دعوت دیں گے؟ آپ جانتے ہی ہیں کہ ہندوستان میں ”جوتش ودیا‘‘ پر بہت بھروسہ کیا جاتا ہے۔ اب یہ پنڈت ہی طے کریں گے کہ مودی جی کے حلف اٹھانے کے لیے شبھ دن کیا ہو گا۔ ہمارے عمران خاں کو اس تقریب میں ضرور شرکت کرنا چاہیے۔ وہ نریندر مودی سے پہلے بھی مل چکے ہیں۔ نریندر مودی اپنے ملک میں کچھ بھی کرتے رہیں، ہمیں اپنے ملک کا مفاد دیکھنا ہے۔ بلکہ اگر دونوں ملکوں میں دوستی اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو گی تو لا محالہ اس سے ہندوستانی مسلمانوں کو بھی فا ئدہ ہو گا۔ اور کیا ہم یہ تجویز پیش کر سکتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں عوامی سطح پر رابطوں کے لیے ہمیں پاک انڈیا فورم جیسے ادارے دوبارہ متحرک کرنے چاہئیں؟ ڈاکٹر مبشر حسن کی صحت تو شاید اس کی اجازت نہ دے لیکن رحمن صاحب تو ماشا اللہ پوری طرح فعال ہیں اور پھر امن کی آشا بھی ابھی نراشا میں تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ تو کیا کو ئی ہے جو اس سمت میں قدم بڑھا سکے؟ نریندر مودی نے تو اپنے کاندھوں پر ہندتوا کا بوجھ لاد رکھا ہے۔ مگر ہمیں اس سے غرض نہیں رکھنا چاہیے۔ اس خطے میں امن و سکون کے لیے کسی کو تو قدم بڑھانا ہو گا۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ