کہاں ہیں فواد چودھری صاحب؟ رمضان کے چند روزے ہی رہ گئے ہیں۔ عید کا چاند قریب آ گیا ہے۔ اب فواد صاحب کا قمری کیلنڈر چلے گا یا رویت ہلال کمیٹی کے ارکان کی آنکھیں؟ فواد چودھری نے بڑی محنت سے قمری کیلنڈر بنوایا ہے۔ اس کیلنڈر میں ایک سال نہیں پورے پانچ سال کے چاند کا طے کر دیا گیا ہے۔ بتا دیا گیا ہے کہ فلاں فلاں تاریخ کو چاند نکلے گا۔ اس سال کی عید پانچ جون کو منانے کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ پھر کیا ہوا؟ آپ نے وہ قصہ تو سنا ہو گا کہ کچھ بھی ہو جائے پرنالہ وہیں گرے گا۔ تو جناب، یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایسی تیسی‘ فیصلہ وہی کریں گے‘ جنہوں نے کرنا ہے۔ فواد چودھری نے کہا: یہ مقدمہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیج دو۔ بھیج دیا گیا۔ وہاں کیا ہوا؟ اس معاملے پر غور ہی نہیں کیا گیا۔ چیئرمین صاحب نے ہی فیصلہ سنا دیا کہ رویت ہلال کمیٹی کے ارکان کو ہی چاند دیکھنا چاہیے۔ اور وہ جو پشاور میں بیٹھ کر مولانا پوپلزئی صاحب چاند دیکھتے ہیں‘ اس کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کی حیثیت اس لئے نہیں کہ پوپلزئی سرکاری کمیٹی کے ارکان نہیں‘ حالانکہ پوپلزئی صاحب بھی انہی شہادتوں پر انحصار کرتے ہیں جن پر سر کاری کمیٹی انحصار کرتی ہے۔ اس پر کسی نے سوال کیا کہ ان دونوں میں سے کون سچا ہے؟ تو اس کا جواب نہیں دیا گیا‘ کیونکہ دونوں جانب ہی عالم دین اور مفتیان متین ہیں۔ اب یہاں ہمارے عمران خاں صاحب کی خاموشی معنی خیز ہے۔ ان کا ایک بہت ہی چہیتا وزیر دن رات محنت کرکے قمری کیلنڈر تیار کراتا ہے۔ وہ پاکستان کو اکیسویں صدی میں داخل کرانا چاہتا ہے اور عمران خاں خاموش ہیں‘ حتیٰ کہ ان کی کابینہ کے ارکان بھی کچھ بولنے کو تیار نہیں ہیں۔ فیصلہ ہوتا ہے کہ اس بار تو رویت ہلال کمیٹی کی بات ہی مانی جا ئے گی‘ اگلے سال دیکھا جائے گا کہ کیا ہونا چاہیے۔ لیجئے، ہم یہاں آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ اگلے سال بھی وہی ہو گا جو برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے‘ خواہ اس وقت عمران خاں کی حکومت ہو یا کسی اور کی۔ عمران خاں یوں بھی بالکل ہی معصوم ہیں۔ انہیں تو یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ خیبر پختونخوا کے پڑوس میں کیا ہو رہا ہے۔ انہیں کوئی بتاتا ہے تو خبر ہوتی ہے۔ پھر بھی وہ خاموش رہتے ہیں۔ اس لئے فواد چودھری خواہ مخواہ ہلکان ہو رہے ہیں۔ یہاں تو وہی چلے گا جو چلتا آ رہا ہے۔ اب کر لو جو کرنا ہے۔ رویت ہلال کمیٹی ایک دن چاند دکھائے گی۔ اور مولانا پوپلزئی اس سے ایک دن پہلے۔ لوگوں نے تو اب کہنا شروع کر دیا ہے کہ ”اپنا اپنا چاند اپنی اپنی عید‘‘۔ پہلے ایسا ہی تو ہوتا تھا۔ ہر شہر اور ہر محلے کے لوگوں پر چھوڑ دیجئے کہ وہ اپنی آنکھوں سے جب تک چاند نہ دیکھیں اس وقت تک نہ روزہ رکھیں، اور نہ عید منائیں۔
آج کی نسل کو تو ہو سکتا ہے یاد نہ ہو، مگر ہمیں یاد ہے۔ رمضان کی انتیس تاریخ کو مغرب کی نماز سے پہلے ہماری مسجد کے بائیں جانب اونچائی پر سب بیٹھ جاتے تھے اور نظریں افق پر گاڑ دیتے تھے۔ پھر آوازیں آتی تھیں۔ وہ دیکھو، وہ، سامنے نظر آ رہا ہے ہلال۔ کٹار کی طرح کا ہلال۔ پھر شور مچ جاتا تھا ”چاند نکل آیا‘ چاند نکل آیا‘‘۔ ہمارے شہر میں تو توپ چلتی تھی۔ اس کے بعد سائرن بجنا شروع ہو گئے۔ رمضان کا بھی اپنا مزہ تھا۔ سحری کے وقت ڈھول بجانے والے آتے تھے کہ ”مومنو اٹھو، سحری کر لو‘‘۔ اور وہی ڈھول بجانے والے عید پر ہر گھر سے عیدی وصول کرتے تھے۔ اور یہ ایسی پرانی بات بھی نہیں ہے۔ اب افطاری اور سحری کے وقت سائرن تو بجتے ہیں مگر سحری کے لیے اٹھانے والے ڈھول غائب ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے جب آپ کے پاس ٹائم پیس ہوں گے تو ڈھول ڈھمکے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اب تو آپ کا موبائل ہی آپ کو سحری پر جگا دیتا ہے۔ اب تو آپ کا اپنا وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ظاہر ہے یہ موبائل، یہ کمپیوٹر، یہ لیپ ٹاپ ہمارے علمائے کرام بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بغیر تو گزارا ہی نہیں ہوتا۔ چلیے، اگر ہمارے علمائے کرام موبائل کے سوا دوسری مشینیں خود استعمال نہ کرتے ہوں تو ان کے بچے تو انہیں ضرور استعمال کرتے ہوں گے۔ کیا یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر وہ اپنی عام زندگی میں یہ نئی پرانی ایجادات استعمال کرتے ہیں اور ان کے ایمان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا تو چاند دیکھنے کے لیے اسی سائنسی علم اور انہیں سائنسی آلات کا استعمال کرنے سے… ان کے بقول… ان کا اور ان کے معتقدین کا ایمان خطرے میں کیوں پڑ جاتا ہے؟ زمین کی گردش کے حساب سے کسی بھی مہینے کے چاند کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ ساری دنیا یہی کر رہی ہے۔ سابق وزیر اطلاعات نے تو یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ اس معاملے اور اس تنازعے میں وہ لاکھوں روپے بھی حائل ہیں جو چاند دیکھنے اور اس کا اعلان کرنے عوض ادا کئے جاتے ہیں؟ بہرحال یہ ان کی ذاتی سوچ ہے ‘ جس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایسے سوال کرنا نامناسب ہے۔
اب رہا پوپلزئی صاحب کا معاملہ‘ تو اس علاقے میں یہ آج کی بات نہیں ہے۔ وہاں تو، ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے‘ یہی دیکھا ہے کہ وہاں چاند ایک دن پہلے ہی نظر آ جاتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اس معاملے میں مولانا مودودی کے ساتھ بھی اس علاقے کے علما کا اختلاف ہو گیا تھا۔ مولانا نے یہی پوچھ لیا تھا کہ وہاں چاند پہلے نظر کیوں آ جاتا ہے؟ اس لیے فواد چودھری کو ہمارا پُر خلوص مشورہ ہے کہ وہ اپنے قمری کیلنڈر کو سنبھال کر رکھیں۔ وہ شاید کسی اگلی صدی میں کام آ جائے گا۔ اس صدی میں تو ان کی کوئی نہیں سنے گا۔ ہاں، اگر ایوب خاں جیسا کوئی آ گیا تو شاید ایسا ہو جائے۔ اگر آپ کو یاد نہ ہو تو تاریخ پڑھ لیجئے۔ ایوب خاں نے جب عائلی قوانین نافذ کئے تھے تو کتنا ہنگامہ ہوا تھا۔ ہمیں ملتان کے قلعہ قاسم باغ میں علمائے کرام کا وہ جلسہ یاد ہے، جس میں مفتی محمود صاحب نے بڑے زور و شور سے ایوب خاں کو للکارا تھا کہ تم دوسری شادی سے پہلی بیوی کی اجازت کی بات کرتے ہو‘ ہمیں تو کسی کی اجازت کے بغیر دو دو اور چار چار شادیوں کا حق ہے۔ معاف کیجئے، ہم خدانخواستہ ایوب خاں یا ایوب خاں جیسی آمریت کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ ہم تو یہ کہہ رہے ہیں بلکہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ جمہوری راستے سے ہی ہمیں کوئی ایسا حکمراں مل جائے جو واقعی سائنسی فکر رکھتا ہو‘ اور اس میں اتنی جرأت بھی ہو کہ وہ اپنے معاشرے میں سائنسی فکر کو پروان بھی چڑھائے۔ اب یہ ہماری خواہش ہی ہے۔ یوں تو ہم جس سمت جا رہے ہیں وہاں ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا‘ لیکن خواہش کرنے میں کیا قباحت ہے۔
تو صاحب ہمارے فواد چودھری صاحب اب کیا کریں گے؟ ان کے ساتھ تو ان کے لیڈر عمران خاں بھی نہیں ہیں۔ اور ان کے ساتھ ایسے وزیر بھی موجود ہیں جو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر اعلان کرتے ہیں کہ اگر کم عمر لڑکیوں کی شادی پر پابندی لگائی گئی تو وہ وزارت چھوڑ دیں گے۔ یہ فواد چودھری کے ساتھی ہیں۔ اب عمران خاں ایسے ساتھیوں کو تو نہیں چھوڑ سکتے ناں۔ وہ کم عمر لڑکیوں کی شادی قبول کر لیں گے، ان ساتھیوں کو نہیں چھوڑیں کے۔ وہ فواد چودھری کا قمری کیلنڈر توچھوڑ دیں گے مگر رویت ہلال کمیٹی کے ارکان کی خفگی برداشت نہیں کریں گے۔ اسی لئے ہم نے عرض کیا ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
آج کی نسل کو تو ہو سکتا ہے یاد نہ ہو، مگر ہمیں یاد ہے۔ رمضان کی انتیس تاریخ کو مغرب کی نماز سے پہلے ہماری مسجد کے بائیں جانب اونچائی پر سب بیٹھ جاتے تھے اور نظریں افق پر گاڑ دیتے تھے۔ پھر آوازیں آتی تھیں۔ وہ دیکھو، وہ، سامنے نظر آ رہا ہے ہلال۔ کٹار کی طرح کا ہلال۔ پھر شور مچ جاتا تھا ”چاند نکل آیا‘ چاند نکل آیا‘‘۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ