عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد سوچنے سمجھنے والے حلقے اب اس ہولناک صورتحال کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں روشن خیالی، رواداری اور وسیع المشربی کی گنجائش محدود سے محدود تر ہوتی جا رہی ہے۔ اور تنگ نظری اور انتہا پسندی ہمارے سیاسی، سماجی اور مذہبی ماحول پر قابض ہوتی جا رہی ہے بلکہ ہماری نئی نسل کے روشن فکر مورخ ڈاکٹر طاہر کامران تو کہہ رہے ہیں کہ تنگ نظری اور شدت پسندی ہمارے ماحول پر قبضہ کر چکی ہے اور روشن خیالی پسپا ہو چکی ہے۔ انہوں نے کل ’’نیوز آن سنڈے‘‘ میں جو مضمون لکھا ہے وہ ہمارے لئے ایک تازیانہ ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ہماری تاریخ میں ایسے واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے جنہوں نے ہمیں ان حالات تک پہنچایا ہے۔ انہی واقعات میں لال مسجد کا واقعہ بھی ہے۔ یہ واقعہ یا سانحہ کیسے ہوا؟ اور اس میں اس وقت کی حکومت کے با اختیار افراد کا کیا کردار تھا؟ اسے ایک دیانت دار اور پختہ کار سرکاری افسر نے اپنی آپ بیتی میں بیان کیا ہے۔ طارق محمود ہمارے معروف اور معتبر ناول نگار ہیں۔ سرکاری افسر کی حیثیت سے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ آج کل وہ اپنی یادداشتیں لکھ رہے ہیں۔ یہ یادداشتیں ملتان کے سہ ماہی رسالے ’’پیلوں‘‘ میں شائع ہو رہی ہیں۔ پیلوں کے تازہ شمارے میں ’’ کچھ میری زنبیل سے‘‘ کے عنوان سے ان یادداشتوں کی جو قسط شائع ہوئی ہے وہ اسلام آباد کی لال مسجد اور اس کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے بارے میں ہے۔ طارق محمود اس زمانے کا قصہ بیان کرتے ہیں جب وہ اسلام آباد میں سیکرٹری داخلہ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’آب پارہ اسلام آباد کے نواح میں جامع مسجد، لال مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے خطیب مولانا عبدالعزیز اپنی شعلہ بیانی کی وجہ سے خاصے مشہور ہیں۔ دین کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر بسا اوقات عملی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے جب ان کے مدرسے میں علم کے فیض سے بہرہ ور طالب علم لاٹھیاں لے کر نکل آتے ہیں۔ وڈیو شاپس، مساج پارلر ان کا فوری ہدف ہیں۔ ان باتوں سے قطع نظر کچھ عرصے پہلے انہوں نے ایک فتویٰ جاری کر دیا۔ وزیرستان اور طالبان کے خلاف جنگ میں شہادت پانے والے نوجوانوں اور افسران کی قربانی پر سوال اٹھا دیئے۔ موصوف نے کئی دیگر علمائے کرام کے ساتھ مل کر فتویٰ جاری کیا اور پھر اس کی خوب تشہیر ہوئی۔ لال مسجد کوئی نجی مسجد نہیں بلکہ محکمہ اوقاف کی مسجد ہے جس کا انتظامی کنٹرول اسلام آباد انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے۔ مولانا دوسرے لفظوں میں محکمہ اوقاف کے ملازم ہیں۔ ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ان کو نوٹس دیا جاتا ہے اور پھر ضابطے کی کارروائی کرنے کے بعد انہیں فارغ کر دیا جاتا ہے۔ مولانا کے بارے میں اصلی فیصلہ سازوں کے ہاں ابہام پایا جاتا ہے۔ کبھی ان کے خلاف سخت اقدامات کی تلقین کی جاتی ہے اور کبھی انتظامیہ کو ہاتھ کھینچ لینے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ وفاقی کابینہ میں بھی ان کے حق میں بات کرنے والے موجود ہیں جو کڑے وقت میں ان کی حمایت میں اپنا وزن ڈالنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ غرضیکہ فیصلہ سازی کی تاریں کئی جگہ سے ہلتی ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے ان کے بھائی مولانا غازی کے مدرسے پر چھاپا مارا، اور ایک بغیر لائسنس کے کلاشنکوف برآمد کر لی۔ کیس رجسٹرڈ ہوا تو وفاقی وزیر برائے مذہبی امور جناب اعجاز الحق کا فون آ گیا۔ وہ اس ریڈ سے ناخوش تھے۔ وزیر موصوف نے اپنی آواز بلند کی تو مجھے کہنا پڑا، ایسی اطلاع پر انتظامیہ آئندہ بھی ایسے ریڈ کرتی رہے گی۔ مناسب ہوگا کہ وہ مولانا صاحبان کو سمجھانے کی کوشش کریں، دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔ مولانا کو ان کی ملازمت سے برطرف کیا جا چکا تھا۔ حکومت کے اہم منصب داروں میں جب بھی ہمدردی جاگتی موصوف کے لئے کلمۂ حق ادا کرنے سے نہ چوکتے۔ سلسلے چلے تو ایک روز اشارہ ہوا کہ مولانا کو فوری طور پر ان کے منصب پر بحال کر دیا جائے۔ اس بحالی کا فطری مطلب تھا کہ لال مسجد جہاں سے انہیں سرکاری طور پر فارغ کیا گیا تھا اسے دوبارہ ان کی عملداری میں دے دیا جائے۔ اس قضیے کے حل کے لئے کچھ ضابطے درکار تھے۔ ان کی برطرفی کے خلاف سیکرٹری داخلہ اپیلیٹ اتھارٹی تھا۔ مولانا کی اپیل لامحالہ میرے سامنے پیش ہوئی۔ میں نے متن کا جائزہ لیتے ہوئے تحریری طور پر مطلع کیا کہ مولانا پہلے اپنا فتویٰ واپس لیں، یا اس سے لاتعلقی کا اظہار کریں جو انہوں نے افواج پاکستان کے شہدا کے بارے میں جاری کیا تھا تو اس کے بعد ہی اپیل پر فیصلہ ممکن ہے۔ میرے نوٹس کے جواب میں مولانا نے ایک تحریر جمع کرا دی، جس کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ افواج پاکستان کے بارے میں ان کے دل میں بڑی قدر و منزلت ہے، اور وہ اس اہم ادارے کو بڑی تقدیس سے دیکھتے ہیں۔ جہاں تک فتوے کا تعلق ہے وہ ایک اجتماعی فتویٰ تھا۔ ان کا اس فتوے کی لاتعلقی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ فتوے کے مندرجات اپنی جگہ قائم رہیں گے جب تک تمام متعلقہ علما فتوے سے لاتعلقی کا اظہار نہ کر دیں۔ دوسرے لفظوں میں مولانا اپنے دیرینہ موقف پر قائم تھے۔ مولانا کے خلاف اسلام آباد پولیس نے مقامی پولیس اسٹیشن میں sedition کے حوالے سے فوج داری دفعات کے تحت کئی کیس بھی کر رکھے تھے۔ میں نے وزارت داخلہ اور ارباب اختیار کو باور کرایا کہ جب تک مولانا اپنے فتوے سے دستبردار نہیں ہوں گے اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت سے ان کے خلاف فوج داری مقدمات واپس نہیں لئے جائیں گے، میرے لئے ان کی بحالی کے آرڈر جاری کرنا ناممکن ہے۔ میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ لیکن اس سارے قضیے میں کون ہار ماننے والا تھا۔ گھوڑے مہرے کئی طرف سے بھاگ رہے تھے، جمعہ کا دن تھا، مجھے وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق کا فون آیا۔ کہنے لگے کہ مولانا عبدالعزیز نے فتوے سے لاتعلقی پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ وہ اپنی شعلہ بیانی کو بھی کنٹرول میں رکھیں گے۔ صدر مملکت سے بات ہو گئی ہے۔ آپ انہیں لال مسجد کی امامت کی باقاعدہ اجازت دے دیں۔ مجھے اپنے طور پر کسی ایسی صورت حال کا علم نہ تھا۔ میں نے ان کی بات کا جواب نہ دیا، صرف اتنا کہا کہ میں وزیر داخلہ اور مقامی انتظامیہ سے مشورہ کر کے کچھ بتا پائوں گا۔ فون بند ہوا تو میرا ذہن ٹھٹکا۔ یہ بالا بالا کس منظر کا سماں تھا۔ میں نے چیف کمشنر اسلام آباد کو فون کیا کہ جمعہ کی نماز کا وقت قریب ہے، وہ مسجد کی سیکورٹی کے بارے میں چوکس رہیں اور موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کے لئے موثر اقدامات کریں۔ چیف کمشنر جنید اقبال میری بات سمجھ چکے تھے۔ کچھ دیر بعد جنید اقبال کا فون آیا، وہ کہنے لگے کہ مولانا عبدالعزیز تو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مسجد پہنچ چکے ہیں اور اس وقت انہوں نے مسجد کی امامت بھی سنبھال لی ہے۔ ایسی گومگو کی کیفیت تین سال تک جاری رہی۔ میرے وزارت داخلہ سے تبادلے کے لگ بھگ دو سال بعد لال مسجد کا سانحہ ظہور پذیر ہوا۔ مولانا اور ان کے ساتھیوں کی شدت پسندی اپنی جگہ، بنیادی طور پر یہ سب ایک ناقص حکمت عملی کی وجہ سے تھا، جس میں طاقت کے بے جا اور اندھا دھند استعمال سے ملک بھر میں تشدد کی لہر کو جواز فراہم کیاگیا‘‘۔ طارق محمود اپنی شرافت میں اسے ناقص حکمت عملی کہتے ہیں لیکن کیا ہمیشہ، اس معاملے میں ہمارے حکمران طبقوں کی یہی سوچی سمجھی حکمت عملی نہیں رہی ہے؟ آپ ستر سال کی تاریخ دیکھ لیجئے۔ دیکھ لیجئے کہ اس کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔
(بشکریہ : روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ