کراچی میں آج کل سڑکوں پہ پڑے کچرے کا بہت شور ہے ۔ سندھ حکومت اور کراچی بلدیہ ایک دوسرے پہ کچرا پھینک رہی ہے۔ اور کچھ مخلوق اسی کچرے سے اپنا اپنا رزق تلاش کر رہی ہے ۔۔ مگر ہم اس بد بو دار کچرے میں زندہ رہ سکتے ہیں ، ہمیں کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس بہت بہت اعلی قسم کے پرفیوم ہیں۔ ہم اس شہر میں کچرا نہیں اٹھا سکتے۔
مگر شہر میں غداروں کی گندگی سے ہمارا دم گھٹتا ہے ۔ ہم شہر میں غدار برداشت نہیں کر سکتے۔ لہذا کچرا نہیں اٹھاتے مگر عمار ہاشمی اور امجد احمد کا اٹھا لیا جاتا ہے۔ دو سال ان کے جسم کے ایک ایک عضو سے غداری نکالتے رہتے ہیں مگر غداری ہے کہ ان کے جسموں سے نکلتی ہی نہیں ۔۔۔۔ اور پھر جب ان کی غداری کی بد بو سے ٹارچر سیل بھر گئے تو کل عمار ہاشمی اور امجد احمد کی غداری سے مسخ شدہ لاشیں شہر کے کچرے پہ پھنیک دی گئیں۔ جس طرح بلوچستان کی ٹوٹی سڑکوں کے کنارے یا کسی گندے تالاب کے کناروں غداروں کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔ جس طرح بلوچستان میں بچیاں اپنے بابا، اپنے بھائیوں کی تصویروں والے فریموں کو بوسہ دیتے ہوئے دعائیں مانگتی تھی: ‘ مولا ہمیں ان کو زندہ نہیں تو کسی ٹوٹی سڑک کے کنارے کسی گندے نالے کے کنارے ان کی مسخ شدہ لاشیں ہی دے دے۔‘
اسی طرح عمار ہاشمی اور امجد احمد کی مائیں بہنیں بھی دو سال دعائیں مانگتی رہی ہوں گی کہ مولا ان کو زندہ نہیں تو ان کی ماسخ شدہ لاشیں ہی کی صورت میں دے دے۔ مولا نے دو سال بعد ان کی دعائیں قبول کرلیں اور کل عمار ہاشمی اور امجد احمد کی مسخ شدہ لاشیں شہر کے کچرے پہ مل گئی ہیں۔ اب ان کی مائیں، بہنیں، بھائی اور باپ ان کو کچرے سے اٹھائیں گے ان کی مسخ شدہ آنکھوں، ہونٹوں، ماتھوں، بالوں پہ الوداعی بوسے دیں گے اور اپنے ہاتھوں سے کچرے کو صاف کرکے مٹی کھود کر ان کو دفن کر دیں گے۔ اور ہم ۔۔۔ اور ہم برما کے مسلمانوں پہ جانیں نچھاور کرنے کے لئے کفن کی خریداری میں مصروف ہو جائیں گے۔
ختم نبوت کے عہد نامے کی عبارت درست کرانے کے لیے جانیں دینے والوں کی فہرست بنانے میں جت جائیں گے۔ مگر ہم کچرے پہ پڑے مسخ شدہ عمار ہاشمی اور امجد احمد کی لاشوں پہ کچھ نہیں کہیں گے۔ کیونکہ کچھ احکامات بغیر تحریر کے بھی ہوتے ہیں۔
(بشکریہ: کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ