پورا عالم اسلام اور خصوصی طور پہ پاکستان کا صلیبی جنگ کا اعلان کرنے والا گروہ نیوزی لینڈ کی مساجد میں دہشت گردی کے واقعہ میں پچاس کے قریب ہلاک ہونے والے نمازیوں کا جشن منا رہا ہے ۔
آپ ذرا اس واقعہ کے بعد پہلے دو دن کے اخبارات دیکھیں، حکومتی وزیروں کےبیانات دیکھیں ، سب عالم اسلام کو باہر نکل کر صلیبی جنگ کا اعلان کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے، وفاقی وزیر شیریں مزاری نیوزی لینڈ میں کرکٹ پہ پابندی کا مطالبہ کر رہی تھی ، خواجہ آصف نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو اپرچونسٹ کا خطاب دے رہے تھے ، اور فیس بک پہ اوریا مقبول جان گروپ اور خالد مسعود کالم نگارجیسے حضرات ( جو یورپ کے ممالک میں مشاعرے پڑھ پڑھ کر پاکستان میں مکانات تعمیر کر رہے ہیں ) مسلمانوں سے یورپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی فریادیں کر رہے تھے ، پاکستان کے لبرل اور ترقی پسندوں کو گالیاں دیتے موم بتی مافیا کے لقب سے نواز رہے تھے ۔
مگر جیسے ہی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے سوگوار سیاہ لباس پہن کر اور سر پہ سیاہ دوپٹہ اوڑھ کر دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو گلے لگاتے اسلام و علیکم کہہ کر اس واقعہ کو ملک کی تاریخ کا سنگین تریں دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا اور کہا ہلاک ہونے والے مسلمان ہم میں سے ہیں دہشت گرد ہم میں سے نہیں ہے ، جب پوری دنیا نے اس دہشت گردی کے واقعہ پہ احتجاج کرتے اسے قابل نفرت قرار دیتے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کےاقدام اور اس کےجذبات کو سراہا تو صلیبی جنگ کے جھنڈے نیچے آنے شروع ہوگئے ، جب دنیا بھر کے لبرل اور ترقی پسندوں نے اس دہشت گردی پہ شدید احتجاج کیا تو موم بتی مافیا کا لقب ربر سے مٹنا شروع ہو گیا،
اور
اور جب نیوزی لینڈ کی پارلیمینٹ میں وزیر اعظم کی تقریر سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کرائی وزیراعظم نے جب کہا کہ میری زبان پہ اس دہشت گرد کا نام کبھی نہیں آئے گا کیونکہ وہ ہم میں سے نہیں ہے میری زبان پہ ان مسلمان نمازیوں کا نام آئے گا جو اس واقعہ میں شہید ہوگئے کیونکہ وہ ہم میں سے ہیں ، تو پورا عالم اسلام جھوم جھوم اٹھا کہ کافروں کے ملک کی پارلیمنٹ میں قرآن شریف کی تلاوت کرائی گئی ہے ۔ اور پھر جب سے یہ اعلان ہوا ہے کہ اب جمعہ کو حکومتی ریڈیو پہ اذان نشر ہو گی، صلیبی جنگ کے گروپ نے صلیبی جنگ کی فتح کا اعلان کر دیا ہے ،،آج انصار عباسی ، اوریا مقبول جان اور ان کے فیس بک کے ہم نواؤ ں کی تحریریں پڑھنے والی ہیں لگتا ہے ان کو اس دہشت گردی کے واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کا کوئی دکھ نہیں بلکہ ان کو اس بات کی خوشی ہو رہی ہے کہ ایک کافر ملک کی پارلیمنٹ میں قرآن شریف کی تلاوت کرائی گی ہے ان کے ریڈیو سے جمعہ کو اذان دی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے صلیبی جنگ کا اعلان کرنے والا گروپ ان ہلاک ہونے والوں کا شکر گزار ہے کہ ان کی ہلاکت سے اس ملک میں اب اذان ہو گئی حتیٰ کہ پاکستان کے وزیر اور وزیر اعظم بھی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی عظمت کو سلام کر رہے ہیں
اور اب ذرا گھرکی صورت حال پہ ایک نظر
بہاولپورکےایک کالج کے انگریزی کے پروفیسر کو اس کے ایک مذہبی جنونی شاگرد نے اس لیے خنجر مار مار کر ہلاک کر دیا کہ یہ پروفیسر ایک ویلکم پارٹی کا اہتمام کر رہا تھا جو اس مذہبی جنونی شاگرد کے نزدیک غیر اسلامی تھا۔
پوری دنیا میں سکولوں کالجوں میں جب ویلکم پارٹی کا اہتمام کیا جاتا ہے تو ظلبہ و طالبات اس میں شامل ہونے کے لیے نئے لباس خریدتے ہیں مگر یہ جنونی شاگرد متعصب ، انسان دشمنی اور مذہبی نفرت کی چھریاں تیز کرتا رہا ۔ اور اس متعصب چھریوں کا رقص اس نے اس پروفیسر کے جسم پہ کیا اور ان نفرت انگیز چھریوں کا رقص پروفیسرکے جسم پہ اس وقت تک کرتا رہا جب تک پروفیسر ہلاک نہیں ہو گیا۔
آپ ذرا غور کریں نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی ہلاکت پہ رونے والے کسی وزیر یا حکومتی نمائندے نے مقتول کے گھر جاکر ان کے ورثا کو نہیں کہا کہ یہ مذہبی جنونی قاتل ہم میں سے نہیں ہے ۔
نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی ہلاکت کو انسانیت کا قتل کہنے والا صلیبی اوریا مقبول جان گروپ میں سے کسی نے بھی اس قاتل سے لا تعلقی کا اعلان نہیں کیا ۔ کسی نے نہیں کہا ہمیں مذہبی متعصب پن کی جنگ کے خلاف میدان میں انا چاہیے۔۔
شاید یہ صلیبی گروپ ابھی نیوزی لینڈ میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی ہلاکت کا دکھ بھول کر نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں کرائی گئی تلاوت اور ہر جمعہ کو وہاں کے ریڈیو سے اذان نشر ہونے کے جشن منانے میں مصروف ہے
فیس بک کمینٹ