استاد اب تم خود ہی ایمان داری سے خدا کو حاضر ناضر جان کر بتاؤ، اس مہنگائی کے دور میں مہنگے کاغذ خرید کر کون ایسے غدار وطن ، گستاخ ادارہ اور توہین ملکی سلامتی کرنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کرائے۔ پھر صاف وشفاف پاک اور پویتر ٹارچر سل کو اس کی گندی سوچ سے ناپاک کرے۔
اس کے بعد اس پہ مقدمہ چلائے۔ اس میں بھی بے بحا کاغذ اور وسائل کا استعمال ۔۔۔۔ وکلا الگ سے بلیک میں کاغذ خرید کر اس کا کیس تیار کریں۔ جج جو بچارے پہلے ہی سیاستدانوں کی کرپشن کے سراغ میں مصروف ہیں، وہ بھی اس غدار کے کیس میں نوٹ لینے کے لیے کاغذ خریدیں ۔ فیصلہ لکھنے کے لیے الگ سے کاغذ خریدا جائے ۔ جیل میں فیصلہ پہنچانے کے لیے کاغذ اور قومی خزانے کا استعمال۔
استاد اب تم ہی ایمان داری سے بتاؤ اس مہنگائی کے دور میں ہم جیسے غریب ملک کو یہ سب عیاشیاں زیب دیتی ہیں۔۔
مطلب تو اسے سمجھانا اور سزا دینا ہی تھا۔ تو اب تم دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ یہ طریقہ مناسب نہیں ۔۔۔ پڑا ہے اب سالا ہسپتال کے بیڈ پر۔ دیکھ نہیں رہے نام احمد نورانی اورغدار کے کرتوت کالے۔
کیسی کہی استاد ۔ خرچہ صفر اور نتیجہ چھوکا
پھر دے ہاتھ استاد
ایک راہگیر نے جو یہ گفتگو سنی تو بولا:
حجور غلطی معاف ایک بات ارج کروں
سالا ایک کاکج تاریخ نے بھی ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے ۔ ا س کے ہاتھ سے وہ کاخج چھیننا نہ بھولنا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ