طبل جنگ بج چکا ہے۔ اس کی آواز صرف ان تیس صحافیوں کو سنائی دی ہے جنھیں خصوصی طور پر جی ایچ کیو میں طلب کر کے بریفنگ دی گئی۔ سینئر صحافی شاہین صہبائی نے چار گھنٹے پر محیط اس “آف دی ریکارڈ” بریفنگ کے بارے میں سوشل میڈیا پر انکشاف کیا۔ صہبائی نے سوال اٹھایا کہ میڈیا کے اینکرز اور ایڈیٹرز آرمی چیف کی طرف سے دی گئی بریفنگ کے بارے میں خاموش کیوں ہیں۔
راقم کسی جی ایچ کیو کی میٹنگ میں مدعو ہونے کے لئے “صداقت اور امانت ” کے کڑے معیار پر پورا تو شاید نہیں اترتا مگر پھر بھی بطور صحافی شاہین صہبائی کےاٹھائے گئے سوال کو جائز سمجھتا ہوں۔ آرمی چیف سے چار گھنٹے کی بریفنگ لینے والے خوش قسمت صحافیوں میں ایسے ایسے نام بھی شامل ہیں جن کی صحافتی ساکھ پر یقیناً کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ اسی لئے اتنی طویل اور اہم ترین ”آف دی ریکارڈ” بریفنگ سے متعلق شہریوں کے جاننے کے آئینی حق کو عارضی طور پر نظر انداز کر نا ان کے نزدیک ایک پیشہ ورانہ اخلاقی مجبوری ہو گی۔ بطور صحافی ہم میں سے کوئی بھی ہمارے سامنے ہونے والی “آف دی ریکارڈ” گفتگو کو کبھی بھی بطور خبر نشر کرنا نہیں چاہے گا۔“آف دی ریکارڈ” گفتگو سے مراد کسی اہم اور مجاز عہدیدار کا صحافی کے ساتھ رازداری کی شرط پر اہم معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے “آف دی ریکارڈ” کے اس تسلیم شدہ صحافتی اصول کا کبھی کبھی ناجائز فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے- صحافیوں کو ایسی معلومات دینے کے تین مقصد ہوتے ہیں۔ پہلا مقصد صحافی کو مخصوص اہم معلومات کے دوسرے ذرائع سے حصول کی امکان کی صورت میں اس خبر کی اشاعت سے روکنے کے لئے “آف دی ریکارڈ” کی شرط لگا دی جاتی ہے۔ دوسرا مقصد مخصوص حلقوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے صحافی یا صحافیوں کو ایک ڈاکیے کے طور پر استعمال کرنا اور تیسرا سب سے اہم مقصد کچھ صحافیوں کو مخصوص صورتحال میں خاص معلومات یا رائے کا اظہار بشرط عدم اشاعت کر کے انہیں خبردار کرنا ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی طاقتور ادارہ صحافت کے بڑے ناموں کو بلا کر بالواسطہ طور پر خبردار کر رہا ہوتا ہے کہ کسی خاص قومی معاملے میں ہم یہ سوچ رکھتے ہیں اور اس حوالے سے اگر میڈیا نے کوئی متبادل رائے قائم کرنے کی کوشش کی تو نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہو گا۔ پنجابی کی کہاوت ہے “نہ کجھ کرن جوگے نہ کسی نوں دسن جوگے” (نہ کچھ کر سکتے ہیں، نہ کسی کو کچھ بتا سکتے ہیں)۔ ایسی “آف دی ریکارڈ” بریفنگوں میں ایسے صحافیوں کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو صحافی “آف دی ریکارڈ” جیسے پیشہ ورانہ حلف کا پابند ہے، کیا وہ ایسی بریفنگوں میں متعلقہ حکام کے اپنے پیشہ ورانہ حلف اور آئین اور قانون سے برخلاف باتوں کو بھی عوام سے چھپانے کا پابند ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر کوئی ادارہ اپنی ہی حکومت کے خلاف آف دی ریکارڈ بریفنگ کرتا ھے تو کیا صحافی اس آئینی خلاف ورزی پر بھی خاموش رہنے کے پابند ہوں گے؟
بین الاقوامی صحافتی اصولوں کے تحت کوئی بھی صحافی اپنی سورس (ذریعہ خبر وہ شخص جو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر دیتا ہے) ظاہر نہیں کرتا۔ مگر جب کوئی سورس ملک کے آئین، قانون اور اپنے پیشہ وارانہ حلف سے روگردانی کرتے ہوئے کسی “آف دی ریکارڈ” بریفنگ میں کچھ باتیں کرتا ہے جو صریحأ ایک جرم ہو تو کیا صحافی ایسے واقعے پر بھی اپنے “آف دی ریکارڈ اصول ” کا پردہ ڈال دیں گے؟ اور پھر جو صحافی ایسی اہم ترین بریفنگوں میں موجود نہیں ہوتے،کیا وہ بھی اس “آف دی ریکارڈ” حلف کے پابند ہوتے ہیں جو میٹنگ میں شریک صحافیوں نے اٹھایا ہوتا ہے؟ اور کیا ایسی بریفنگوں میں شریک نہ ہونے والے صحافی اپنے “ذرائع” استعمال کرتے ہوئے ان بریفنگوں کاحال عوام تک نہیں پہنچا سکتے؟ ایسی صورتحال میں ایسے اجلاسوں میں شریک کچھ صحافی مفاد عامہ میں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر شریک نہ ہونے والے صحافیوں کا “ذریعہ خبر” بن سکتے ہیں؟
راقم کی رائے میں جب خبر خود صحافت اور میڈیا کے عوامی مفاد کے منافی کردار سے متعلق ہو تو صحافی بھی ذریعہ خبر بن سکتے ہیں۔ تو جناب جی ایچ کیو میں آرمی چیف کی ملک کے نامور صحافیوں کو چار گھنٹے کی بریفنگ کے بعد چوبیس گھنٹے تک عوام کو اندھیرے میں رکھا جانا یقیناً ایک خبر ہے اور اس بریفنگ میں کیا باتیں ہوئی، یہ جاننا بھی عوام کا حق ہے۔ چونکہ راقم الحروف اس میٹنگ میں موجود نہیں تھا تو “قابل اعتماد ” صحافتی ذرائع کا سہارا لیتے ہوئے اس اجلاس کا محض اتنا خلاصہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ آرمی چیف نے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر کھل کر اپنا مؤقف بیان کیا۔ اگر یہ مؤقف “آف دی ریکارڈ” نہ ہوتا اور پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا ہوتا تو پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کا رہا سہا بھرم بھی نہ رہتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی در نااہلی کے اور آنے والے عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل کروانے کے لئے تمام ضروری اقدامات بلا جھجک اٹھائے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق دلیل یہ ھے کہ جرائم پیشہ افراد چاہے جتنے بھی ووٹ لے لیں یا بڑے جلسے کر لیں، ہر عدالتی فیصلے پر عملدرآمد لازمی ہو گا کیونکہ ایک شخص کے پیچھے پورے ملک کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا- ظاہر ھے وہ ایک شخص نواز شریف ہے۔ عدالتیں جو فیصلہ بھی کریں گی، فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ بھی واضح کیا گیا کہ نیب کا ادارہ سب کا بلا امتیاز، بلاتفریق احتساب کرے گا۔ ملک کی معیشت کی حالت دگرگوں ہے اور ہماری پالیسیاں ناکام۔ فوج ملکی سالمیت کی خاطر تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے گی۔ امریکہ میں حال ہی میں مقرر کئے گئے نوجوان سفیر علی صدیقی کی قابلیت اور تجربے پر سوال اٹھایا گیا۔ چار گھنٹے کی اس ملاقات میں جو کچھ بھی ہوا، اس کو کسی صورت بھی غیر سیاسی قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ “آف دی ریکارڈ” تاریخی ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی کہ جب سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی جماعت عدالتی فیصلوں کے باوجود اور ان کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے میں بظاہر کامیاب نظر آ رہی ہے۔ کچھ لوگ آئندہ انتخابات کو ملکی عدلیہ کے ان فیصلوں سے متعلق ریفرنڈم بھی قرار دے رہے ہیں۔ آرمی چیف کی صحافیوں سے اس طویل ترین ملاقات کا وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور ان کی حکومت کو علم ہو نہ ہو مگر ایک بات واضح ہے کہ یہ آئین اور جمہوری اداروں کی بالادستی ہرگز نہیں۔ اگر آئندہ انتخابات کے بعد بھی ایسی ہی کمزور سیاسی حکومت وجود میں آنی ہے کہ جس کے ماتحت ادارے “آف دی ریکارڈ” میٹنگوں میں اپنے پیشہ وارانہ اور آئینی حلف سے روگردانی کرتے ہوئے سیاسی بیان بازی کریں تو پھر پاکستان کے “عوام لنڈورے ہی بھلے”۔ ایسی ہی بریفنگوں سے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ فوج اور عدلیہ مل کر ایسا ماحول بنا رہے ہیں کہ جس سے عوام کے ذہنوں کو کسی مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف پراگندہ کیا جائے اور بلوچستان میں “سیاسی” تبدیلی کے بعد اب سینیٹ چیئرمین کے انتخابات کے معاملات بھی ایسے ہی خدشات کو تقویت دیتے ہیں۔ اصولی طور پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو جی ایچ کیو میں ہونے والی اس میٹنگ کا نوٹس لینا چاہیے اور آئندہ کے لئے صحافیوں کو بھی ایسی غیر آئینی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ”آف دی ریکارڈ” جیسے صحافتی اصولوں کو کسی صورت بھی ڈھال بنا کر آئین اور جموری اداروں کے خلاف بیان بازی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان کے صحافیوں نے جمہوریت کے لئے طویل جنگ لڑی ہے اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ ہماری ماضی کی قربانیوں کا سودا ایسی غیر آئینی “آف دی ریکارڈ” بریفنگوں میں شریک ہو کر اور پھر خاموش رہ کر کریں۔ وگرنہ تاریخ ایسے پاکستانی صحافیوں کوان الفاظ میں یاد کرے گی۔ ”شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے”۔
( بشکریہ : ہم سب ۔ لاہور )